بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایمازون کلب ویب سائٹ کے ذریعے کمائی کا حکم


سوال

 Amazon Club ایک ویب سائٹ ہے، وہاں پرلوگ ان کی پراڈکٹس کی تشہیر کرتے ہیں اور ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی مدعو کرتے ہیں، جن لوگوں کو وہ مدعو کرتے ہیں تو منافع کا کچھ حصہ ان کو بھی ملتا ہے ،اب یہ منافع ان کے لیے جائز ہے کہ نہیں؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

1۔صورت ِ مسئولہ میں ایمازون ویب سائٹ پر فروخت ہونے والی جائز اشیاء کی قیمتوں میں سے مخصوص تناسب کے عوض تشہیری اور ترویجی مہم میں حصہ لینا جائز ہےاور اس پر فیصد کے اعتبار سے کمیشن مقرر کرکے کمیشن لینے میں کوئی مضائقہ نہیں، شرعاً یہ کام دلالی کے حکم میں ہے، جس کی اجرت لینا جائز ہے۔
البتہ یہ ضروری ہے کہ اس میں شرعًا کوئی ایسا مانع نہ ہو جس کی وجہ سے اصلاً بیع ہی ناجائز ہوجائے، جیسے مبیع کاحرام ہونا، لہٰذا صرف ان ہی مصنوعات کی تشہیر کی جائے جو اسلامی نقطہ نظر سے حلال ہوں، جو چیزیں شرعاً حرام ہیں، ان کی تشہیر کرکے پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح جس کمپنی کی مصنوعات کی تشہیر کرنا ہو اس کمپنی کی طرف سےمصنوعات کے حقیقی اوصاف، قیمت وغیرہ واضح طور پر درج ہو۔ سامان نہ  ملنے یا غبن ہوجانے کی صورت میں مصنوعات خریدنے کے لیے جمع کی گئی رقم کی  واپسی کی ضمانت دی گئی ہو۔
مزید یہ کہ آرڈر کرنے کے بعد مقررہ تاریخ تک مصنوعات نہ ملنے پر یا زیادہ تاخیر ہونے کی صورت میں کسٹمر کو آرڈر کینسل کرنے کا بھی اختیار ہو۔ نیز آن لائن تجارت کرنے والےایسے ادارے اور افراد بھی ہیں جن کے یہاں مصنوعات موجود نہیں ہوتیں، محض اشتہار ات ہوتے ہیں، اس لیے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ اس کمپنی کے پاس مصنوعات کا حقیقی وجود ہے۔

2۔دوسرے لوگوں کو مدعو کرکے نفع کمانے سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ جن لوگوں کو سائل خود مدعو کرے،اس پر تو کمپنی سے ایک دفعہ کمیشن لے سکتا ہے،لیکن اگر یہ لوگ جنہیں سائل نے مدعو کیا ،یہ آگے اور لوگوں کو مدعو کرتے ہیں،تو بعد والوں کی محنت کی بنیاد پر سائل کے لیے کمیشن لینا درست نہیں ہوگا۔

الدر المختار میں ہے:

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسہٖ بإذن ربہا فأجرتہ علی البائع، وإن سعٰی بينہما وباع المالک بنفسہٖ يعتبر العرف وتمامہ في شرح الوہبانيۃ۔"
وفي الرد تحتہ:
(قولہ: فأجرتہ علی البائع) وليس لہٗ أخذ شيء من المشتري؛ لأنہ ہو العاقد حقيقۃ شرح الوہبانيۃ وظاہرہٗ أنہٗ لا يعتبر العرف ہنا؛ لأنہٗ لا وجہ لہٗ. (قولہ: يعتبر العرف) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو عليہما بحسب العرف جامع الفصولين."   

  (حاشيۃ ابن عابدین،ج:۴، ص:۵۶۰،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں