بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوقتِ ضرورت امانت کی رقم استعمال کرنا


سوال

زید نے بکر کے پاس 10 لاکھ امانت کے طور پر رکھوائے تھے اور  کہا تھا کہ میں تم سے یہ  رقم 2  سال بعد واپس لوں گا،  بکر کی بیٹی کا آپریشن ہے اور  زید ایسے مقام پر ہے کہ اس سے رابطہ ممکن نہیں اور  بکر کے پاس  زید کی امانت کے علاوہ کوئی رقم بھی نہیں، امانت رکھوائے تین سال ہو گئے ہیں۔ کیا بکر، زید  کی رقم میں سے بطورِ  ضرورت پیسہ استعمال کر سکتا ہے؟ ایسی حالت میں امانت کی رقم ضمان کے لزوم کے ساتھ گنجائش کی کوئی صورت ہوسکتی ہے یا نہیں؟

جواب

امانت کی رقم کا  مالک کی اجازت کے بغیر  ذاتی استعمال میں لانا امانت میں خیانت اور ناجائز ہے، البتہ مالک کی اجازت سے اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے، اور امانت کی رقم اگر استعمال کرلی تو یہ امانت کے حکم سے نکل جائے گی، اور  مضمون ہوجائے گی، یعنی اگر ہلاک ہوگئی تو  پھر اس کا ضمان لازم آئے گا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  بکر کے لیے  زید کی رکھوائی گئی امانت کی رقم کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اگر اس رقم کے علاوہ کوئی رقم نہیں ہے تو بکر کو چاہیے کہ وہ قرض لے لے، اور اگر قرض بھی نہیں ملتا اور وہ مستحقِ زکات ہے تو وہ زکات و غیرہ سے تعاون لے سکتا ہے، لیکن امانت میں خیانت کی اجازت نہیں ہوگی، البتہ اگر  بکر نے اس رقم کے استعمال کی پیشگی اجازت لی ہو ،یا زید نے از خود اس رقم کے استعمال کرنے کی اجازت دی ہو تو اس صورت  میں اس رقم کا استعمال درست ہوگا۔

الفتاوى الهندية - (4/338):

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه ، كذا في الشمني .الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن ، وإن فعل شيئا منها ضمن ، كذا في البحر الرائق ".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں