بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

امانت رکھوا کر مالک وصول نہ کرے تو کیا حکم ہے؟


سوال

میں ایک دوکان دار ہوں، اکثر لوگ ہماری شاپ پر کوئی چیز بھول جاتے ہیں، جیسے عینک وغیرہ، میں اس چیز کو سنبھال کر رکھ دیتا ہوں کہ جب وہ بندہ لینے آئے تو میں اس کو واپس دے دوں گا، مگر زیادہ تر لوگ واپس لینے نہیں آتے تو کیا وہ چیز میں اپنے استعمال میں لا سکتا ہوں؟

میرا دوسرا سوال یہ کہ لوگوں کے پاس اکثر کھلے روپے نہ ہوں تو میں ان کو کہتا ہوں کہ باقی روپے واپس آکر لے جانا، یا کہتا ہوں کہ مجھے واپسی پر دے جانا تو اکثر لوگ واپس لینے نہیں آتے یا میرے روپے مجھے بعد میں نہیں دے کر جاتے۔

ان دونوں سوالات کا جواب عنایت فرمائیں!

جواب

1)  مذکورہ اشیاء جو لوگ آپ کے پاس رکھ کر بھول جاتے ہیں اور واپس نہیں لیتے یہ اشیاء آپ کے پاس امانت ہیں اور امانت کاحکم یہ ہے کہ جس شخص نے امانت رکھوائی ہے اسے حتی الامکان تلاش کیاجائے اور اس کے بارے میں لوگوں سے معلومات حاصل کی جائیں، اگروہ شخص مل جاتاہے تو امانت اس کے حوالے کی جائے اور اگر کسی بھی طرح امانت رکھوانے والے کا پتا نہ چلے تو اس شخص کے ورثاء کو تلاش کیاجائے، ورثاء مل جانے کی صورت میں امانت ان کے حوالے کی جائے،  اگر ان میں سے کوئی صورت بھی ممکن نہ ہو تو   امانت کا حکم "لقطہ" (گم شدہ چیز) کا ہوگا، یعنی اس صورت میں بھی بہتر تو یہی ہوگا کہ آپ  اس چیز (عینک، رقم وغیرہ) کو محفوظ  رکھیں، تاکہ مالک آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے۔ اور  یہ بھی جائز ہے کہ آپ  یہ  چیز کسی مستحقِ زکات کو صدقہ کردیں، اور اگرآپ  خود   زکاۃ کے  مستحق ہو تو خود بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد صاحبِ مال آجاتاہے تو اسے اپنی امانت کے مطالبے کا اختیارحاصل ہوگا۔

2) آپ کی رقم جو لوگوں کے ذمے ہوتی ہے اور لوگ وہ رقم واپس نہیں کرتے  تو اس صورت میں آپ ان لوگوں  سے اپنی رقم کے  مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں، اگر آپ انہیں جانتے ہیں تو ان سے مطالبہ کرلیا کریں، قصدًا کسی کے حق کو دبا کر رکھنا اور ادا نہ کرنا ظلم ہے، آخرت  میں مواخذہ ہوگا، البتہ اگر رقم معمولی ہے اور آپ   کی نیت یہ ہے کہ وہ لوگ اس  مواخذہ سے بچ جائیں تو ان کو معاف کردینا بہترہے۔

لوگوں کی جو رقم آپ کے پاس رہ جاتی ہے اس کا حکم نمبر ایک کے تحت گزر چکا ہے۔

المبسوط للسرخسي(2/11):

"فَأَمَّا (النَّوْعُ الثَّانِي) وَهُوَ مَا يَعْلَمُ أَنَّ صَاحِبَهُ يَطْلُبُهُ فَمَنْ يَرْفَعُهُ فَعَلَيْهِ أَنْ يَحْفَظَهُ وَيُعَرِّفَهُ لِيُوَصِّلَهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَبَدَأَ الْكِتَابُ بِهِ وَرَوَاهُ عَنْ إبْرَاهِيمَ قَالَ فِي اللُّقَطَةِ: يُعَرِّفُهَا حَوْلًا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا تَصَدَّقَ بِهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَهُوَ بِالْخِيَارِ إنْ شَاءَ أَنْفَذَ الصَّدَقَةَ، وَإِنْ شَاءَ ضَمَّنَهُ."

بدائع الصنائع (173/7):

"وَمِنْهَا الْمَطْلُ وَهُوَ تَأْخِيرُ قَضَاءِ الدَّيْنِ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ فَيُحْبَسُ دَفْعًا لِلظُّلْمِ لِقَضَاءِ الدَّيْنِ بِوَاسِطَةِ الْحَبْسِ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں