بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1446ھ 07 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

امانت کے ضائع ہوجانے اور ضمان و عدم ضمان کا حکم


سوال

میری والدہ گاؤں سے آرہی تھیں، ان کی بڑی بھابھی نے ایک تولہ سونے کی بالیاں repearing کے لیے امانت کے طور پر دیے، کہ جب میرا بیٹا آئے گا تو یہ بالیاں اس کو دینا کہ وہ سنار کو دےدے گا، اس کے بیٹے نے آنے کے بعد کہا میرے پاس ٹائم نہیں ہے، اپنے شوہر کے ہاتھوں سنار کو بھجوادیں، گواہ کے طور پر ایک بندہ بھی میرے ساتھ تھا، سنار نے ایک ہفتہ کا ٹائم دیا، ایک ہفتے کے بعد جب میں لینے کے لیے گیاتو محلے والوں سے پتہ چلا کہ سنار بھاگ گیا ہے، اور یہ 2016ء کی بات ہے، ہم نے بروقت ان کو اطلاع دے دی کہ سنار بھاگ گیا ہے، انہوں نے کہا کہ اس میں تمہارا قصور نہیں ہے۔ اب آٹھ سال بعد ہمارے اوپر دعوی کیا ہے کہ ہمیں یا تو سونا دو یا موجودہ وقت کے حساب سے قیمت دو۔ اب اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ سونے کی بالیاں  سائل کی والدہ کے پاس امانت تھیں، سائل کی والدہ نے اپنی بھابھی کے کہنے کے مطابق جب  سونے کی بالیاں  ان کے بیٹے کے حوالے کرنے کے لیے ان  کے بیٹے کو بلایا اور بیٹے نے از خود  یہ بالی لے جاکر سنار کو دینے کے بجائے یہ کہا کہ آپ اپنے شوہر (یعنی سائل کے والد )کے ذریعہ بھجوادیں ، اور سائل کی والدہ نے سائل کے والد کے ہاتھ  یہ بالیاں  بھجوائی اور سنار کو  دی گئیں  تو سائل کی والدہ اس امانت سے بری الذمہ ہوگئی تھیں، نیز سنار کے بھاگنے کی اطلاع بھی جب مذکورہ عورت کے بیٹے کو دے دی گئی اور اس وقت انہوں نے یہ بھی کہا کہ” آپ کا قصور نہیں“ تو اب آٹھ سال بعد مذکورہ سونےیا موجودہ قیمت کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔

شرح المجلہ لسلیم رستم باز میں ہے:

"الوديعة أمانة في يد المودَع، فإذا هلكت بلا تعد منه و بدون صنعه و تقصيره في الحفظ لايضمن، ولكن إذا كان الإيداع بأجرة فهلكت أو ضاعت بسبب يمكن التحرز عنه لزم المستودع ضمانها".

( أحكام الوديعة، رقم المادة:777، ج:1، ص:342، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."

(کتاب الودیعة، الباب الأول، ج: 4، ص: 338، دار الفکر)

فتاوى قاضي خان میں ہے :

"رجل له على رجل دين فبلغه أن المديون قد مات فقال جعلته في حل أو قال وهبته منه ثم ظهر أنه حي ليس للطالب أن يأخذ منه لأنه وهبه منه بغير شرط، رجل غصب عبداً أو ثوباً أو دابة أو دراهم وهي قائمة فأبرأه منها برئ الغاصب عن ضمان الغصب ويصير المغصوب أمانة في يده،وكذا لو قال المغصوب منه حللته من الغصب برئ الغاصب عن الضمان، وإن كان المغصوب مستهلكاً برئ الغاصب عن ضمان القيمة لأنه أبرأه عن الدين والدين يقبل الإبراء، فأما إذا كان المغصوب قائماً كان التحليل إبراء له عن سبب الضمان فتصير العين أمانة في يده عندنا."

 (كتاب الغصب، فصل في براءةالغاصب و المديون، ج: 3، ص: 124، ط: دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608100633

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں