بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 ذو القعدة 1446ھ 12 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

امانت کی ضمانت لینے کا حکم


سوال

زید  نے عمر و سے اس شرط پر  گھڑیا ں لیں کہ وہ اس کو عمرو کے لیے فروخت کرے گا ،  اس لیے  کہ زید کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ  ان گھڑیوں کو اپنے لیے خرید کر آگے فروخت کر ے  اور  اس عقد کے دوران   ان دونوں کے درمیان یہ طے ہوا کہ  جو گھڑی 6ہزار سے زیادہ قیمت پر فروخت ہوجائے تو 6ہزار  عمرو کے  ہوں گے اور باقی زید کے  ہو ں گے اور جو گھڑیاں فروخت  نہ ہوں   ، وہ عمر و واپس لے گا ، ا  س کے بعد وہ گھڑیاں  زید کے گھر سے چوری ہو گئیں ،تو اس صورت میں زید پر  کوئی ضمان  ہوگا  یا نہیں ؟ 

مذکورہ  صورت میں چوری کے بعد زید نے  مسئلہ سے عدم واقفیت کے بناء پر عمرو  کے لیے ضمان قبول کرلیا اور اس کی ادائیگی کے لیے مہلت طلب کی ، بعد میں مفتیان کرام سے رجوع کرنے کے بعد عدم ضمان کا علم ہوا ۔ 

 اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں زید کا مسئلہ  سے عدم واقفیت کے بناء پر مذکورہ گھڑیوں کی قیمت کا ضمان قبول کرنا شرعا کیسا ہے ؟ اور  کیا اب زید پر ان گھڑیوں  کا ضمان ادا کرنا ضروری ہے ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ زید ’’وکیل بالأجر ‘‘ ہے ،  یعنی وکیل بھی ہے اور اجیر بھی ،لیکن  مذکورہ صورت میں اجرت کا    معاملہ شرط فاسد( گھڑی اگر6ہزار  سے  زیادہ فروخت ہوجائے تو اضافی رقم زید کی ہوگی ) کی وجہ سے اجارہ  فاسدہ  ہے  اور وکیل اور  اجارہ فاسدہ میں  اجیر    کے پاس موجود چیز امانت ہوتی ہے ،   لہذا  مذکورہ گھڑیاں  ’’زید‘‘ کے پاس امانت تھیں اور  جس طرح امانت کا بغیر تعدی کے ضائع ہونے کی صورت میں ضمان واجب نہیں ہوتا ، اسی طرح  ایسی صورت میں امانت کے ضیاع کا تاوان یا ضمان قبول کرنا  بھی شرعا  درست نہیں ہے  ، چنانچہ زید کے گھر سے گھڑیاں چوری ہونے میں اگر زید کی غفلت ثابت نہیں ہوتی تو زید کے ذمہ اس ضمان کی ادائیگی واجب نہیں ہے ،اور اگر زید کی طرف سے غفلت ثابت ہو جائے تو پھر زید ان گھڑیوں کا ضامن ہو گا۔

المبسوط للسرخسی میں ہے: 

"وهذا لأن الوكيل أمين في المقبوض والأمين يحفظ الأمانة تارة بيده وتارة بيد من في عياله."

(كتاب الوكالة، باب الوكالة في الدين، ج: 19، ص: 68، ط:دار المعرفة)

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے: 

"(قوله: ويكون قبضه قبض الموكل)، وإذا سلمه حقيقة سقط حق الحبس فكذا إذا سلمه حكما ولأن الوكيل أمين ألا ترى أنه لا يضمن بالهلاك عنده كالمودع فليس للأمين حق الحبس بعد طلب المودع. اهـ. غاية."

(كتاب الوكالة، باب الوكالة بالبيع و الشراء ، ج: 4، ص: 261، ط:  دارالكتاب الإسلامي)

 

فتاوی ہندیہ میں ہے:  

"والإجارة تفسدها الشروط التي لا يقتضيها العقد ..."[وقال بعده : ]"وإن تكارى دابة إلى بغداد على أنه إن رزقه الله تعالى من بغداد شيئا أو من فلان شيئا أعطاه نصف ذلك فهذا فاسد وعليه أجر مثلها فيما يركب، وإن تكاراها إلى بغداد على أنها إن بلغته بغداد فله أجر عشرة دراهم وإلا فلا شيء له فالإجارة فاسدة وعليه أجر مثلها بقدر ما سار عليها. كذا في المبسوط."

(كتاب الإجارة، الباب الخامش عشر في بيان مايجوز من الإجارة و مالايجوز ، ج: 4، ص: 442 - 443، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(ولا يضمن ما هلك في يده وإن شرط عليه الضمان) ؛ لأن شرط الضمان في الأمانة باطل كالمودع (وبه يفتى) كما في عامة المعتبرات، وبه جزم أصحاب المتون فكان هو المذهب خلافا للأشباه."[و في رد  المحتار: ]" وفي البدائع: لا يضمن عنده ما هلك بغير صنعه قبل العمل أو بعده؛ لأنه أمانة في يده وهو القياس. وقالا يضمن إلامن حرق غالب أو لصوص مكابرين وهو استحسان اهـ. قال في الخيرية: فهذه أربعة أقوال كلها مصححة مفتى بها، وما أحسن التفصيل الأخير ..."[إلى أن قال:]"فقد اختلف الإفتاء، وقد سمعت ما في الخيرية. وقال ابن ملك في شرح المجمع: وفي المحيط: الخلاف فيما إذا كانت الإجارة صحيحة فلو فاسدة لا يضمن اتفاقا؛ لأن العين حينئذ تكون أمانة لكون المعقود عليه وهو المنفعة مضمونة بأجر المثل اه...."

(كتاب الإجارة ، باب الإجارة الفاسدة ، ج: 6، ص: 65، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(ولا بمبيع) قبل قبضه (ومرهون وأمانة) بأعيانها، فلو بتسليمها صح في الكل درر، ورجحه الكمال فلو هلك المستأجر مثلا لا شيء عليه ككفيل النفس."[و في رد المحتار: ]"(قوله: ومرهون وأمانة) اعلم أن الأعيان إما مضمونة على الأصيل أو أمانة. فالثاني كالوديعة ومال المضاربة والشركة والعارية والمستأجر في يد المستأجر، والمضمونة إما بغيرها كالمبيع قبل القبض والرهن فإنهما مضمونان بالثمن والدين، وإما بنفسها كالمبيع فاسدا والمقبوض على سوم الشراء والمغصوب ونحوه مما تجب قيمته عند الهلاك، وهذا تصح الكفالة به كما يذكره المصنف دون الأولين لفقد شرطها، وهو أن يكون المكفول مضمونا على الأصيل لا يخرج عنه إلا بدفع عينه أو بدله، هذا خلاصة ما في البحر وغيره."

(كتاب الكفالة، ج: 5، ص: 309، ط: سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144603100330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں