ایک شخص نے میرے پاس رقم بطورِ امانت رکھوائی اور کہا کہ اگر تمہیں ضرورت پڑے تو استعمال کر سکتے ہو، میں نے اس کا کچھ حصہ تیسرے شخص کو ادھار دے دیا، سال گزرنے پر مذکورہ رقم کی زکوۃ کس پر فرض ہوگی ؟اصل مالک پر یا مجھ پر یا جس نے قرض لیا؟
امانت رکھوانے والے کی اجازت سے امانت کی رقم کا استعمال سائل کے لیے جائز تھا ، البتہ اس رقم کے مالک چوں کہ رکھوانے والے شخص ہیں؛ اس لیے اس رقم کی زکاۃ مالک پر لازم ہے ، سائل پر یا قرض لینے والے پر نہیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض."
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:267، ط:سعید)
"الفتاوى الهندية" میں ہے:
"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني."
(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:338، ط:رشيدية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144412101064
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن