ہماری مسجد کے امام صاحب ایک مشہور برانڈ کا کرتہ پہنتے ہیں، اس کرتہ کے ساتھ برانڈ پاجامہ بناتا ہے شلوار نہیں، اس وجہ سے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ امام صاحب کو شلوار پہننی چاہیے پاجامہ میں جماعت کرانا مکروہ ہے ،آپ سے راہ نمائی درکار ہے کہ پاجامہ پہننے والے امام کے پیچھے نماز بلاکراہت درست ہے؟
واضح رہے کہ اگر لباس اس قدر باریک ہے کہ جس سے جسم کا رنگ نظر آتا ہے تو ایسے لباس میں نماز جائز نہیں ہے، لیکن اگر کپڑا موٹا ہے جس سے جسم کی رنگت واضح نہیں ہوتی، البتہ چست ہونے کی وجہ سے اعضا کی بناوٹ ظاہر ہوجاتی ہے تو ایسے لباس میں اگرچہ نماز صحیح ہو جائے گی، لیکن ایسا چست لباس پہننااور اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں امام کا صرف برانڈ پائجامہ پہننے سے نماز مکروہ نہیں ہوگی ،بلکہ اگر امام کا پاجامہ اس قدر باریک ہے کہ جس میں جسم کا رنگ نظر آتا ہے تو پھر نماز جائز نہیں ہوگی ،يا باریک تو نہیں لیکن اس قدر چست ہے کہ جس کی وجہ سے مستورہ اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہے تو اس قسم کے پاجامہ میں نماز پڑھنا مکروہ ہوگی لیکن اگر قمیص لمبی ہے اور پاجامہ چست ہے مگر قمیص کی وجہ سے پردہ ہوجاتا ہے تو اس کے پہننے میں حرج نہیں ہے اگر چہ گھٹنوں کے نیچے پنڈلیوں کے ساتھ پاجامہ چپکا ہوا ہو۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وعادم ساتر) لا يصف ما تحته، ولا يضر التصاقه وتشكله...(يصلي قاعدا)"
"(قوله لا يصف ما تحته) بأن لا يرى منه لون البشرة احترازا عن الرقيق ونحو الزجاج (قوله ولا يضر التصاقه) أي بالألية مثلا، وقوله وتشكله من عطف المسبب على السبب. وعبارة شرح المنية: أما لو كان غليظا لا يرى منه لون البشرة إلا أنه التصق بالعضو وتشكل بشكله فصار شكل العضو مرئيا فينبغي أن لا يمنع جواز الصلاة لحصول الستر. اهـ".
(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، 1/ 410، ط: سعيد)
البحر الرائق میں ہے:
"وحد الستر أن لا يرى ما تحته حتى لو سترها بثوب رقيق يصف ما تحته لا يجوز ".
(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة،1/ 283، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512101014
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن