"نادِ علی" عملیات میں بہت مشہور ہے، اس کی اصل کیا ہے؟ کیا اس کا عمل جائز ہے، شرک تو نہیں؟
کسی کی زندگی میں اس سے مافوق الاسباب کوئی چیز مانگنا جائز نہیں ہے، اور کسی کی وفات کے بعد اس سے مدد طلب کرنا جائز نہیں ہے، جب کہ ’’اہلِ تشیع‘‘ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے کچھ کلمات مرتب کیے ہیں، من جملہ ان میں سے "نادِ علی" ہے، اس کا ترجمہ ہے: "علی کو پکارو"، اس جملے (نیز اس وظیفے سے مراد دیگر کلمات) میں غیر اللہ سے اس کے انتقال کے بعد استغاثہ (مدد طلب کرنا) پایا جاتا ہے، اس لیے اس جملہ کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ عملیات میں ہو یا ویسے ہی ہو۔
صحيح مسلم میں ہے:
’’ عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»‘‘.
(4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا باس بالرقی مالم یکن فیه شرک، ط: دار احیاء التراث العربی)
جهود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية (2/ 1087):
"ناد عليًّا مظهر العجائب ... تجده عونًا في النوائب
كل همّ سينجلي ... بولايتك يا علي يا علي".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110201616
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن