بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عملیات کو پیشہ بنانے کا حکم اور شرعی نقطۂ نظر


سوال

مجبوراً عملیات کرنا اور اسے ذریعہ معاش بنانا شرعی رُوسے کیسا ہے؟ حلال ہے یا حرام؟

جواب

واضح رہے کہ دیگر  علاج ومعالجہ کی طرح عملیات اور تعویذات بھی علاج کی ایک قسم ہے،  تعویذات اور عملیات کے ذریعے علاج کرنا اور اس پر معقول معاوضہ لینا درجِ ذیل چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:

:۔ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو۔

 :۔ ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو۔

:۔  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ۔

  :۔  عملیات کرنے والا علاج سے واقف اور  ماہر ہو، دھوکہ دہی نہ کرتا ہو۔

:۔ کسی بھی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً: اجنبی عورتوں سے اختلاط اور بے پردگی وغیرہ۔

         لہذا  ایسے تعویذ اور عملیات جو قرآنی آیات ،  ماثور دعاؤں یا صحیح کلمات  و وظائف  پر مشتمل ہوں  ان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے،   اس پر معقول معاوضہ  لینا بھی جائز ہے۔

لیکن جن تعویذوں میں شرکیہ کلمات یا  مجمل اور مجہول کلمات یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھے جائیں یا ا نہیں حقیقی مؤثر سمجھا جائے تو ان کا استعمال  اور ان کے ذریعہ اجرت لینا  شرعاً جائز نہیں ہے۔

اور بعض علماءِ کرام عملیات اور تعویذات کے پیشے سے منع کرتے ہیں تو ان کے پیشِ نظر  بھی وہ صورتیں ہوتی ہیں جن میں مذکورہ شرائط نہ پائی جاتی ہوں، یا جن صورتوں میں عوام کے اعتقاد کے فساد کا اندیشہ ہو، لہٰذا فتنہ و فساد کا دروازہ پیشگی بند کرنے کی غرض سے عاملین کی طرف رجوع سے منع کرتے ہیں؛ کیوں کہ عوام دنیاوی اغراض کے لیے بسا اوقات ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیں، کبھی کبھی غیر مسلم عاملین تک سے رجوع کرتے ہیں۔

یہ بھی واضح  رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد اور دینِ اسلام کے مزاج کے پیشِ نظر  علماءِ دین کے لیےعملیات کو مشغلہ بنانا اور اس میں انہماک کچھ پسندیدہ نہیں ہے، تاہم مسلمانوں کو غیر مسلم اور فاسق و فاجر لوگوں کے پاس جانے سے روکنے کے لیے جائز طریقہ سے عملیات اور تعویذات کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

صحيح مسلم میں ہے:

’’ عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»‘‘.

(باب لا بأس بالرقی مالم یکن فی‬ه شرك: ج:4، ص:1727، ط: دار احیاء التراث العربی)

 ترجمہ : ”‏‏‏‏ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم جاہلیت کے زمانے میں منتر کیا کرتے تھے۔ ہم نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کیا فرماتے ہیں اس میں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے منتروں کو میرے سامنے پیش کرو کچھ قباحت نہیں منتر میں اگر اس میں شرک کا مضمون نہ ہو۔““

سنن أبي داؤد  میں ہے:

"عن أبي سعید الخدري أن رهطاً من أصحاب النبي صلی الله علیه وسلم انطلقوا في سفرة سافروها، فنزلوا بحي من أحیاء العرب، فقال بعضهم: إن سیدنا لدغ، فهل عند أحد منکم شيء ینفع صاحبنا؟ فقال رجل من القوم: نعم، والله إني لأرقي، ولکن استضفناکم، فأبیتم أن تضیفونا، ما أنا براق حتی تجعلولي جعلاً، فجعلوا له قطیعاً من الشاء، فأتاه، فقرأ علیه أم الکتاب ویتفل حتی برأ کأنما نشط من عقال، قال: فأوفاهم جعلهم الذي صالحوهم علیه، فقالوا: اقتسموا، فقال الذي رقی: لاتفعلوا حتی نأتي رسول الله صلی الله علیه وسلم فنستأمره، فغدوا علی رسول الله صلی الله علیه وسلم فذکروا له، فقال رسول الله صلی الله علیه وسلم: من أین علمتم أنها رقیة؟ أحسنتم، اقتسموا واضربوا لي معکم بسهم".

(سنن أبي داؤد، کتاب الطب، باب کیف الرقی؟: ص: 544، ج: 2، ط: میر محمد کراچی)

ترجمہ : ”حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی ایک جماعت ایک سفر پر نکلی اور وہ عرب کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ میں اتری، اس قبیلہ میں سے بعض نے آ کر کہا: ہمارے سردار کو بچھو یا سانپ نے کاٹ لیا ہے، کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو انہیں فائدہ دے؟ تو ہم میں سے ایک شخص نے کہا: ہاں اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں، لیکن ہم نے تم سے ضیافت کے لیے کہا تو تم نے ہماری ضیافت سے انکار کیا، اس لیے اب میں اس وقت تک جھاڑ پھونک نہیں کر سکتا جب تک تم مجھے اس کی اجرت نہیں دو گے، تو انہوں نے ان کے لیے بکریوں کا ایک ریوڑ اجرت مقرر کی، چنانچہ وہ آئے اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کرنے لگے ،یہاں تک کہ وہ اچھا ہو گیا، گویا وہ رسی سے بندھا ہوا تھا چھوٹ گیا، پھر ان لوگوں نے جو اجرت مقرر کی تھی پوری ادا کر دی، لوگوں نے کہا: اسے آپس میں تقسیم کر لو، تو جس نے جھاڑ پھونک کیا تھا وہ بولا: اس وقت تک ایسا نہ کرو جب تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے اجازت نہ لے لیں، چنانچہ وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ منتر ہے؟ تم نے بہت اچھا کیا، تم اسے آپس میں تقسیم کر لو اور اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگانا“۔

وفي حاشیته:

" قال العیني: کأنه أراد المبالغة في تصویبه إیاهم. فیه جواز الرقیة، وبه قالت الأئمة الأربعة، وفیه جواز أخذ الأجرة. قال محمد في الموطأ: لابأس بالرقی بما کان في القرآن وبما کان من ذکر الله تعالی، فأما ماکان لایعرف من الکلام فلاینبغي أن یرقی به، انتهی."

مرقاۃ المفاتیح  میں ہے:

’’وأما ما كان من الآيات القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذاً أو رقيةً أو نشرةً، وأما على لغة العبرانية ونحوها، فيمتنع؛ لاحتمال الشرك فيها‘‘.

(الفصل الثانی، کتاب الطب والرقی: ص؛2880، ج:7 ط: دار الفکر)

وفیه أیضاً:

’’(أو تعلقت تميمةً) : أي: أخذتها علاقةً، والمراد من التميمة ما كان من تمائم الجاهلية ورقاها، فإن القسم الذي اختص بأسماء الله تعالى وكلماته غير داخل في جملته، بل هو مستحب مرجو البركة عرف ذلك من أصل السنة، وقيل: يمنع إذا كان هناك نوع قدح في التوكل، ويؤيده صنيع ابن مسعود - رضي الله عنه - على ما تقدم، والله أعلم‘‘.

(الفصل الثانی، کتاب الطب والرقی: ص:2881، ج:7 ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

’’[فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.

(قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم وليس كذلك؛ إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية؛ لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان: أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمةً فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم، وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى. وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه»، قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار‘‘. 

(کتاب الحظر والإباحة: ج:6، ص:363، ط: سعید)

زاد المعاد  فی ھدی خیرالعباد میں ہے :

’’ذكر مالك في " موطئه ": عن زيد بن أسلم: ( «أن رجلاً في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم أصابه جرح، فاحتقن الجرح الدم، وأن الرجل دعا رجلين من بني أنمار، فنظرا إليه، فزعما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهما: " أيكما أطب"؟ فقال: أو في الطب خير يا رسول الله؟ فقال: " أنزل الدواء الذي أنزل الداء» )

ففي هذا الحديث أنه ينبغي الاستعانة في كل علم وصناعة بأحذق من فيها فالأحذق، فإنه إلى الإصابة أقرب‘‘.

(فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في الإرشاد إلى معالجة أحذق الطبيبين: ص:781، ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں