بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمل کثیر کا مطلب


سوال

 عمل کثیر کسے کہتے ہیں؟

جواب

عملِ کثیر کی تعریف میں فقہاءِ کرام کے متعدد اقوال ہیں:

1۔ـ  مفتیٰ بہ اور راجح قول یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرنا کہ  دور سے دیکھنے والے کو یقین ہو جائے  کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا ہے۔

2ـ  ۔دوسرا قول یہ ہے  کہ جو کام عام طور پر دو ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، مثلاً عمامہ باندھنا، ازار بند باندھنا وغیرہ، یہ تمام کام عمل کثیر شمار ہوتے ہیں، اگر یہ کام ایک ہاتھ سے کرے تب بھی یہ عملِ کثیر کہلائے گا اور جو کام عام طور پر ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے وہ عملِ قلیل شمار ہوتا ہے، اگر یہ کام دو ہاتھوں سے کرے تب بھی عملِ قلیل ہی کہلائے گا۔

3ـ  ۔تیسرا قول یہ ہے کہ تین حرکاتِ متوالیہ یعنی تین بار سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کی مقدار وقت میں تین دفعہ ہاتھ کو حرکت دی تو یہ عملِ کثیر ہے ورنہ قلیل ہے۔

یہ تین قول ہی زیادہ مشہور ہیں اور درحقیقت تینوں کا حاصل ایک ہی ہے، اس لیے  کہ قولِ ثانی و ثالث میں مذکور عمل کے کرنے والے کو اگر دور سے کوئی دیکھے تو اسے یقین ہو جائے گا  کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا ہے۔

البنایۃ فی شرح الہدایہ میں ہے:

"الخامس: أنه لو نظر إليه ناظران بعيدان إن كان لا يشك أنه في غير الصلاة فهو كثير مفسد للصلاة، ولو شك لا يفسد، [قال المرغيناني: هو الأصح، ولو حملت امرأة صبيها فأرضعته أو قطع ثوبا أو خاطه] قال المرغيناني: فهذا كله عمل كثير على الأقوال كلها،............"

(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا،ج2،ص449،ط؛دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101761

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں