بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

Amadox پر پروڈکٹس شیئر کرنے پر کمیشن لینے کا حکم


سوال

گوگل پر ایک ویب سائٹ ہے Amadox کے نام سے ، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ یہ ویب سائٹ Amazon کے پروڈکٹس کی شیئرنگ کا کام کرتی ہے اور اس کو جوائن کرنے  کے لیے ساڑھے سات سو روپے چارجز وصول کیے جاتے ہیں، جنہیں کمپنی والے انویسٹمنٹ کا نام دیتے ہیں،  یہ چارجز ادا کرنے کے بعد ہی ہم ویب سائٹ پر کام کر سکتے ہیں، یہ ویب سائٹ ہمیں Amazon کے کچھ پروڈکٹس دیتی ہے،ان پروڈکٹس کو انٹرنیٹ پر شیئر کرنا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمیں کچھ انکم آتی ہے، پھر اگر ہم اپنی ٹیم بناتے ہیں یعنی اپنی پروفائل کے لنک سے کسی دوسرے کو جوائن کرواتے ہیں تو اس سے ہم کو کمپنی کی جانب سے بونس ملتا ہے، اور ہماری انکم جو ہمیں پروڈکٹس شئیر کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے، اس میں اضافہ ہو جاتا ہے،  لیکن جس کو ہم نے اپنے لنک سے جوائن کروایا ہے  اس کے کام کرنے سے اور آگے جوائن کروانے سے ہم کو مزید کچھ بھی نہیں ملتا ،  اب آیا اس کی پروڈکٹ کو شئیر کرنے سے ہمیں جو انکم آرہی ہے وہ حلال ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں Amadox پرکام کرنےوالےکی حیثیت اجیرِ مشترک کی ہے،اورمذکورہ معاملہ  عقدِاجارہ کےزمرہ میں آتاہے،اوراجارہ میں کوئی ایسی شرط لگاناکہ  جس کی ضرورت نہ ہو،توایسی شرط اس معاملہ کوفاسدکردیتی ہے؛لہذاصورتِ مسئولہ  میں Amadox ویب سائٹ پرکام کرنےوالےکوساڑھے سات سو روپےکی چارجزدینےکاپابندکرناایسی شرط ہےجوکہ عقدکےمقتضیات میں سےنہیں ہے؛لہذاشرطِ فاسدپرمبنی ہونےکی وجہ سےمذکورہ معاملہ جائزنہیں۔ 

المعجم الاوسط للطبرانی میں ہے:

"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تحل صفقتان في صفقة»."

(باب  الالف،١٦٩/٢،ط:دار الحرمين)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى ركن العقد فخلوه عن شرط لا يقتضيه العقد ولا يلائمه حتى لو أجره داره على أن يسكنها شهرا ثم يسلمها إلى المستأجر أو أرضا على أن يزرعها ثم يسلمها إلى المستأجر أو دابة على أن يركبها شهرا أو ثوبا على أن يلبسه شهرا ثم يسلمه إلى المستأجر فالإجارة فاسدة لأن هذا شرط لا يقتضيه العقد وأنه شرط لا يلائم العقد، وزيادة منفعة مشروطة في العقد لا يقابلها عوض في معاوضة المال بالمال،يكون ربا أو فيها شبهة الربا وكل ذلك مفسد للعقد."

(كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة،١٩٥/٤،ط:دارالكتب العلمية)

الدرالمختار  میں ہے:

 "وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية."

(كتاب البيوع،4/ 560،ط:سعید)

مجمع الضمانات میں ہے:

"‌الدلال لو باع العين بنفسه بإذن مالكه ليس له أخذ الدلالة من المشتري إذ هو العاقد حقيقة وتجب الدلالة على البائع إذا قبل بأمر البائع ولو سعى ‌الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف فتجب الدلالة على البائع أو على المشتري أو عليهما بحسب العرف."

(القسم الثاني في الاجير،٥٤،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الدلال أجير مشترك."

(كتاب الاجارة،الباب الثامن والعشرون في بيان حكم الأجير الخاص والمشترك، الفصل الثاني في المتفرقات، ٥١٢/٤،ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100824

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں