بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا خواب میں اللہ تعالی سے دیدار ہونے کا واقعہ


سوال

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا اللہ تعالیٰ سے دیدار ہونے کے بارے میں کیا صحت ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا خواب میں اللہ تعالیٰ سے دیدار ہونے کا واقعہ بڑے بڑے محدثین اور علماء نے  اپنی مختلف کتابوں میں ذکر کیا ہے، نیز امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جیسے بلند پایہ ولی اللہ کا اپنے خواب میں اللہ تعالیٰ سے دیدار ہونا کوئی بعید بات نہیں ہے۔

سیر اعلام النبلاء للذہبیؒ میں ہے:

"أخبرنا أبو حفص بن القواس، أنبأنا الكندي، أخبرنا عبدالملك الكروخي (1)، أخبرنا أبو إسماعيل الانصاري، أخبرنا محمد بن عبد الجليل، أخبرنا محمد بن أحمد بن إبراهيم (ح)، وقال أبو محمد الخلال: أخبرنا عبيد الله ابن عبدالرحمن الزهري، قالا: أخبرنا أحمد بن محمد بن مقسم، سمعت عبد العزيز بن أحمد النهاوندي، سمعت عبد الله بن أحمد بن حنبل، سمعت أبي، يقول: رأيت رب العزة في المنام، فقلت: يا رب، ما أفضل ما تقرب به إليك المتقربون ؟ قال: بكلامي يا أحمد.

قلت: يا رب، بفهم، أو بغير فهم ؟ قال: بفهم وبغير فهم."

(78: احمد بن حنبل: ج:11، ص: 347، ط: مؤسسة الرسالة)

التبصرۃ لابن الجوزیؒ میں ہے:

" وقال أحمد بن حنبل رضي الله عنه: رأيت رب العزة عز وجل في المنام، فقلت يارب ما أفضل ما يتقرب به المتقربون إليك؟ فقال: بكلامي ياأحمد، فقلت: يارب بفهم أو بغير فهم، فقال بفهم وبغير فهم."

(المجلس السادس في ذکر الحج: ج:2، ص: 251، ط: دار الکتب العلمیة)

تفسیر مظہریؒ میں ہے:

" وعلى روية اللّه تعالى انعقد إجماع أهل السنة والجماعة، وخالفهم أهل الهواء من المعتزلة والخوارج وغيرهم بامتناعها زعما منهم بأنها تتوقف على كون المرئي حسما كثيفا بلا حجاب، وكون المسافة بين الرائي والمرئي متوسطة لا فى غاية القرب ولا فى غاية البعد وخروج شعاع البصر من الرائي ووصوله إلى المرئي المقتضى ثبوت الجهة له تعالى، واستدلوا على امتناع الروية من المنقول بقوله تعالى: لا تدركه الأبصار، وقالوا تأويل هذه الآية أن ناظرة بمعنى منتظرة أمر ربها وإنعامه، ويابى عنه العربية فان الانتظار يتعدى باللام دون إلى والنظر بالبصر يعدى بالى، وقال أهل السنة الروية: لا تتوقف إلا على كون المرئي موجودا أو كذلك فى جانب الرائي لا يشترط إلا الوجود والحيوة والعلم والأبصار، وأما توقف الروية على غير ذلك من الشرائط فأمر عادى فى خصوص المادة، ولا يجوز قياس الغائب على الشاهد، ولا شك أن اللّه سبحانه تعالى يرى خلقه من الماديات والمجردات من غير مسافة بينهما ولا خروج شعاع وهو السميع البصير، كيف ينكر كونه مرئيا بعد ما نطق به البشير النذير، وقوله تعالى: لا تدركه الأبصار إنما ينفى الدرك وهو يقتضى الإحاطة وحصول العلم بكنهه وذلك محال، وأما العلم الحضوري بالكنه بمعنى حضور كنه المعلوم عند العالم فليس بمحال لكنه متعال عن درك الأبصار، واللّه تعالى أعلم."

(سورة القیامة: ج:10، ص:143-144، ط: رشیدیة)

معارف القرآن میں ہے:

”( لَن تَراني"یعنی آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے) اس میں اشارہ ہے کہ روٴیت ناممکن نہیں مگر مخاطب بحالت موجودہ اس کو برداشت نہیں کرسکتا ورنہ اگر روٴیت ممکن ہی نہ ہوتی تو لن ترانی کے بجائے لن اُری کہا جاتا کہ میری روٴیت نہیں ہوسکتی (مظہری) اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار دنیا میں بھی عقلاً ممکن تو ہے مگر اس آیت سے اس کا ممتنع الوقوع ہونا بھی ثابت ہوگیا اور یہی مذہب ہے جمہور اہل سنت کا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی روٴیت عقلاً ممکن ہے مگر شرعاً ممتنع جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے لن یری أحد منکم ربّہ حتی یموت یعنی تم میں سے کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا۔ “

(تفسیر معارف القرآن: ج:4، ص: 61، ط: مکتبہ معارف القرآن)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407102313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں