ہماری مسجد کے متصل جنازہ گاہ ہے،جس کا اندر آنے کا دروازہ بہت تنگ ہے اس کے برابر میں ایک دوکان ہے،جونالے پر بنی ہوئی ہے اورجنازہ گاہ کے دروازے کے ساتھ ہے،یہ مسجد محکمہ اوقاف کی ہے،اس میں جو دوکانیں ہیں وہ کرایہ پر ہیں،متعلقہ د کان دار اپنی دکان (جنازہ گاہ کے دروازے کےساتھ والی) دینا چاہ رہا ہے،یہ شخص غریب ہے(اس دکان کے علاوہ اس کا کوئی آمدن کا ذریعہ نہیں،چوں کہ دکان ختم ہونے سے اس کا ذریعہ آمدن ختم ہورہا ہے )مسجد کے نمازی اس شخص کی زکاۃ کی مد سےمدد کرنا چاہ رہے ہیں،اس صورت میں یہ جگہ مسجد کی جنازہ گاہ کے گیٹ میں شامل کی جارہی ہے،شرعی حکم کیا ہے؟یہ دکان بھی اوقاف کی ہے،اس شخص کو کرایہ پر دی ہے۔
وضاحت:
یہ دکان محکمہ اوقاف کی اجازت سے جنازہ گاہ میں شامل کی جارہی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں دکان محکمہ اوقاف کی ملکیت ہے،محکمہ اوقاف کی اجازت سے اس کو جنازہ گاہ کی گیٹ کی وسعت کے لیے اس کو شامل کی جارہی ہے،ایسا کرنا جائز ہے۔
اگر دکان دار غیر سید اور مستحق زکوٰۃ ہے،تو اس کو زکوٰۃ کی مد میں تعاون کے دو طریقے ہیں،ایک یہ ہے تمام نمازی مل اپنے کسی ایک ساتھی نمازی کو تمام رقم دیں اور وہ تمام رقم دکان دار کو یکمشت دے دیں،دوسرا طریقہ یہ کہ ہر شخص بذات خود اس کو زکوٰۃ دے،اس میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے،اگر بعض نمازیوں کی زکوٰۃ ادا کرنے سے وہ صاحب نصاب بن گیا،تو پھر اور حضرت اس کو زکوٰۃ کی مد میں مدد نہیں کرسکتے،کیوں کہ اب وہ مستحق زکوٰۃ نہیں رہا۔
یہ بات ملحوظ رہے کہ مذکورہ زکوٰۃ کی رقم اس وجہ سے ادا کی جارہی ہو کہ وہ دکان دار مستحق زکوٰۃ ہے،اگر دکان خالی کرنے کے بدلے زکوٰۃ کی رقم ادا کی جائے،تو زکوٰۃ ادا کرنے والے کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."
(كتاب الزكاة، الباب الأول، 170/1، ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"إن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء، وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أن قولهم شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أن الواقف نفسه شرط ذلك حقيقة أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط وقد أخبرني بعض قوام مدرسة إن واقفها كتب ذلك ليجعل حيلة لمنع إعارة من يخشى منه الضياع والله سبحانه أعلم."
(كتاب الوقف، مطلب في وقف المنقول قصدا، 366/4، ط: سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية."
(کتاب الزکوۃ ، الباب السابع فی المصارف،1/ 189 ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان كمن له نصاب سائمة لا تساوي مائة درهم."
"(قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها."
(کتاب الزکوٰۃ، باب مصرف الزکوٰۃ والعشر، ج: 2، ص: 348,347، ط: سعید)
وفيه ايضاً:
"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر.....(هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة."
"(قوله: أدنى شيء) المراد بالشيء النصاب النامي وبأدنى ما دونه فأفعل التفضيل ليس على بابه كما أشار إليه الشارح. والأظهر أن يقول من لا يملك نصابا ناميا."
(کتاب الزکوٰۃ، باب مصرف الزکوٰۃ والعشر، ج: 2، ص: 339، ط: سعید)
وفيه ايضاً:
"(وكره إعطاء فقير نصابا) أو أكثر (إلا إذا كان) المدفوع إليه (مديونا أو) كان (صاحب عيال) بحيث (لو فرقه عليهم لا يخص كلا) أو لا يفضل بعد دينه (نصاب) فلا يكره فتح."
(کتاب الزکوٰۃ، باب مصرف الزکوٰۃ والعشر، ج: 2، ص: 353، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102315
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن