1- حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ مُسْلِمُ بْنُ سَالِمٍ الْهَمْدَانِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِيسَى سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ : لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ ، فَقَالَ : أَلَا أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : بَلَى فَأَهْدِهَا لِي ، فَقَالَ : سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكُمْ ، قَالَ : قُولُوا : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ. ( صحیح بخاری حدیث: 3370 )
2- حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ : لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ ، فَقَالَ : أَلَا أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً ؟ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَدْ عَلِمْنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكَ ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ قَالَ : فَقُولُوا : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.(صحیح بخاری حدیث: 6357 )
یہ دونوں احادیث سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ سے مروی ہیں لیکن ان میں ایک درود شریف میں صرف آل ابراہیم کا ذکر ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر نہیں ہے تو کیا صرف آل ابراہیم کہنے سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر بھی درود پہنچ جاتا ہے؟ اور ایسا کیوں ہے کہ ایک صحابی سے دو طرح کے طریقے وارد ہوۓ ہیں؟
درود شریف میں صرف آل ابراہیم(جیسا کہ سوال میں مذکور دوسری روایت میں ہے) سے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درودپہنچتا ہے، جیساکہ ابن قيم رحمه الله (المتوفى: 751ھ)’’جلاء الأفهام‘‘ میں صراحت سے فرماتے ہیں کہ آل ابراہیم سے مراد ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں کہ حقیقی طور پر یہ الفاظ حضور علیہ السلام کی جانب سے ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجنے کے لیےہی ہیں، جب کہ آل ابراہیم تو تبعًااس درود میں شامل ہے ، ابن قیم رحمہ اللہ کی تصریح ملاحظہ فرمائیں :
" فَقَالَت طَائِفَة: يُقَال: آل الرجل لَهُ نَفسه، وَآل الرجل لمن يتبعهُ، وَآله لأَهله وأقاربه، فَمن الأول: قَول النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لما جَاءَهُ أَبُو أوفى بِصَدَقَتِهِ اللَّهُمَّ صل على آل أبي أوفى، وَقَوله تَعَالَى: {سَلام على إل ياسين}، وَقَوله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: اللَّهُمَّ صل على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد كَمَا صليت على آل إِبْرَاهِيم، فآل إِبْرَاهِيم هُوَ إِبْرَاهِيم لِأَن الصَّلَاة الْمَطْلُوبَة للنَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم هِيَ الصَّلَاة على إِبْرَاهِيم نَفسه وَآله تبع لَهُ فِيهَا. "
(جلاء الأفهام، الفصل الرابع في معني الآل واشتقاقه واحكامه، (ص: ٢٠٦)، ط/ دار العروبة - كويت)
اسي طرح حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى:852 ھ) بھی ان بعض روایات جن میں فقط آل ابراہیم وارد ہوا ہے کی تاویل کرتے ہوئے’’فتح الباری ‘‘میں فرماتے ہیں کہ: اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ آل ابراہیم کے الفاظ پر جنہوں نے اکتفا کیا ہے اور ابرہیم علیہ السلام کا ذکر نہیں کیا، انہوں نے روایت بالمعنی کی ہو، اس بنیاد پر کہ ابراہیم علیہ السلام تو آلِ ابراہیم کے الفاظ میں بدرجہ اَولی شامل ہیں ، ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :
"وَلَمَّا اخْتَلَفَتْ أَلْفَاظُ الْحَدِيثِ فِي الْإِتْيَانِ بِهِمَا مَعًا، وَفِي إِفْرَادِ أَحَدِهِمَا، كَانَ أَوْلَى الْمَحَامِلِ أَنْ يُحْمَلَ عَلَى أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ كُلَّهَ، وَيَكُونُ بَعْضَ الرُّوَاةِ حَفِظَ مَا لَمْ يَحْفَظِ الْآخَرُ، وَأَمَّا التَّعَدُّدُ فَبَعِيدٌ، لِأَنَّ غَالِبَ الطُّرُقِ تُصَرِّحُ بِأَنَّهُ وَقَعَ جَوَابًا عَنْ قَوْلِهِمْ كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ، وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ بَعْضُ مَنِ اقْتَصَرَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ بِدُونِ ذِكْرِ إِبْرَاهِيمَ رَوَاهُ بِالْمَعْنَى بِنَاءً عَلَى دُخُولِ إِبْرَاهِيمَ فِي قَوْلِهِ آلِ إِبْرَاهِيمَ. "
(فتح البارى، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، (11/ 160)، ط/ دار المعرفة- بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308101357
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن