بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

الوداع کے الفاظ سے طلاق


سوال

السلام و علیکم مفتی صاحب میرے دوست نور اور اسکی بیوی آپس میں بہت محبت سے رہ رہے تھے . اچانک انکی محبت نفرت میں بَدَل گئی ، اور اسکی بیوی ماں کے گھر چلی گئی .نور کو اپنی بیوی بہت یاد آ رہی تھی اِس وجہ سے اس نے یہ کلمات لکھے اور سوچا کہ اسکو بھیج دو .کلمات یہ ہیں . " اگر زندگی رہی تو پِھر مل جائینگے ، یہ سفر اگر آخری ہے تو الوداع ہمیشہ کے لئے " ب اس کو یہ فکر ہے کے کہیں لفظ الوداع سے طلاق تو نہیں ہوئی ہے کلمات لکھتےوقت‎اور كلمات لکھنے ‎ کے بعد نور کے دِل میں شیطان بار بار طلاق کے خیالات ڈال رہا تھا ، تو اسنے شيطان كے بار بار خيالات طلاق كي وجہ سے وہ کلمات پهاڑ دیئے . آپ یہ بتائے کہ کلمات لکھتے وقت اگر شیطان کے بار بار طلاق کے خیالات ڈالنے کی وجہ سے) 1 ( طلاق کی نیت تھی تو کیا طلاق ہوگئی ہے یا نہیں ) 2 ( اگر طلاق کی نیت نہیں تھی تو بھی ہوگئی ہے یا نہیں .اور کلمات کے بعد اگر شیطان کے بار بار طلاق کے خیالات ڈالنے کی وجہ سےطلاق کی نیت تھی تو ہوگئی ہے یا نہیں ، اور اگر نیت نہیں تھی تو بھی ہوگئی ہے یا نہیں .نوٹ : میرا دوست نور وسوسہ کا مریض بھی ہے .

جواب

مذکورہ صورت حال میں، جب کہ سائل کے مطابق اس کا دوست نور محمد وسوسے کا مریض بھی ہے، ان کلمات سے کہ:اگر زندگی رہی تو پِھر مل جائینگے ، یہ سفر اگر آخری ہے تو الوداع ہمیشہ کے لئے، جب کہ نیت بھی طلاق کی نہیں تھی،اور شوہر کا جملہ اگر کے ساتھ ہے ۔مزید یہ کہ وہ وسواسوں کا بھی شکار ہے ،ان تمام وجوہات کو مد نطر رکھتے ہوئے ط طلاق واقع نہیں ہوئی۔ غیر شعوری طور پر طلاق کا خیال آجانا، طلاق کی نیت شمار نہیں ہوگا، اس لیے کہ نیت باقاعدہ ایک اردای عمل کا نام ہے۔


فتوی نمبر : 143512200019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں