کیا حضرت علقمہ رضی اللہ تعالی کا ماں کی نافرمانی سے متعلق واقعہ من گھڑت ہے، جس کا فضائل الاعمال میں بھی ذکر ہے؟
یہ واقعہ ان روایات میں سے ہے ، جنہیں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہتعالیٰ نے اپنی مسند میں نقل کرنے کے بعد اس کے ضعف کی وجہ سےحذف کر دیا تھا، چنانچہ ان کے فرزند عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ والد محترم نے فائد بن عبد الرحمن کی حدیثوں کو اپنی کتاب سے نکال دیا تھا، کیوں کہ وہ ان کی حدیثوں پر راضی نہ تھے، اور انہیں متروک الحدیث کہتے تھے، اور سوال میں مذکور روایت انہی میں سے ہے۔
"قال أبو عبد الرحمن: وكان في كتاب أبي: حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا فائد بن عبد الرحمن قال: سمعت عبد الله بن أبي أوفى يقول: جاء رجل إلى النبي صلي الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! إن هاهنا غلاماً قد احتضر، يقال له: قل لا إله إلا الله، فلا يستطيع أن يقولها. قال: أليس قدكان يقولها في حياته؟ قال: بلى، قال: فما منعه منها عند موته؟ فذكر الحديث بطوله. لم يحدث أبي بهذين الحديثين -حديثين من طريق فائد عن ابن أبي أوفى- ضرب عليهما من كتابه؛ لأنه لم يرض حديث فائد بن عبد الرحمن، وكان عنده متروك الحديث."
(مسند أحمد بن حنبل، حديث عبد الله بن أوفى رضي الله تعالى عنه، ٣٢/ ١٥٤، رقم الحديث :١٩٤١١، مؤسسة الرسالة ١٤٢٩ھ)
امام بیہقی رحمہ اللہ اس روایت کو فائد بن عبد الرحمن کے واسطے سے نقل کرنےکے بعد فرماتے ہیں:
"تفرد به فائد أبو الورقاء، وليس بالقوي، والله أعلم."
(شعب الإيمان، باب في بر الوالدين، فصل في عقوق الوالدين، ٦/ ١٩٨، رقم الحديث: ٧٨٩٢، مكتبة دار الباز ١٤١٠ھ)
حافظ عقیلی رحمہ اللہ نے الضعفاء الكبير میں داود بن ابراهيم عن جعفر بن سليمان عن فائد العطار کے طریق سے اس روایت کونقل کرنےکے بعد فرمایا ہے:
"لا يتابعه إلا من هونحوه."
(الضعفاء الكبير للعقيلي، ترجمة فائد بن عبد الرحمن ، ٣/ ٤٦١، دار الكتبالعلمية، بيروت)
علامہ ابن الجوزي رحمہ اللہ نے اسی سند سے روایت کو كتاب الموضوعات میں نقل کیا ہے۔(کتاب الموضوعات، باب تأثير عقوق الأم، ٣/ ٨٧، دار الفكر ،١٤٠٣ھ)
حافظ ذھبی رحمہ اللہ ترتيب الموضوعات میں فرماتے ہیں کہ داؤد بن ابراہیم کذاب ہے۔(ترتیب الموضوعات ، كتاب البر، ص: ٢٤٨، رقم الحديث: ٨٧٤، دار الكتب العلمیة ، ١٤١٥ھ)
فائد بن عبد الرحمن اگرچہ سنن ترمذی کے راوی ہیں، مگر امام ترمذی نے بھی انہیں يضعف في الحديث کہا ہے۔
امام بخاری نے منکر الحدیث کہا ہے۔(التاريخ الكبير، ٧/ ٢٣،دار الكتب العلمية ، ١٤٢٢ھ)
حافظ ابن عدی فرماتے ہیں :
"وهو مع ضعفه يكتب حديثه."
(الكامل في ضعفاء الرجال، ٦/ ٤٥١، الرسالة العالمية ١٤٣٣ھ)
حافظ ذھبی فرماتے ہیں :
" تركه أحمد و الناس."
(ميزان الاعتدال : ٣/ ٣٣٩، الرسالة العالمية ١٤٣٠ھ)
امام ترمذی کا فائد بن عبد الرحمن کی روایت نقل کرنا یہ بتا تا ہے کہ ان کاضعف قابلِ تحمل ہے۔
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ترتیب الموضوعات میں فائد العطار عن ابن أبي أوفى کی ایک روایت کے متعلق فرمایا :
"وما هو موضوع، بل يحتمل."
(ترتيب الموضوعات، ص:١٦٦،دار الكتب العلمية ١٤١٥)
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اس حدیث کا دار و مدار "فائد بن عبد الرحمٰن العطار" پر ہے، جس پر سخت جرح کی گئی ہے، "واضع" کا اطلاق تو صراحتًا کسی نے نہیں کیا، تاہم "متہم بالکذب" اور "متروک" ضرور کہا گیا ہے، نیز ایک اور راوی "داؤد بن ابراہیم" کو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے "کذاب" لکھا ہے، لہٰذا اس روایت کو بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200210
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن