بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

المحیط البرہانی کا مستند نسخہ اور افتاء میں اس کتاب کا مقام


سوال

 ميرے پاس ’’المحیط البرھانی‘‘ کے دونسخےہیں:

1- ایک دارالکتب العلمیۃ بیروت سے  شائع ہوا ہے، اس میں 10جلد ہیں۔

2- دوسرا نسخہ 25 جلدوں پر مشتمل ہے اور  اس  میں حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کا مقدمہ بھی شامل ہے۔

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ان دو نسخوں  میں کون سانسخہ صحیح اور معتبر ہے؟ اور یہ کتاب  فقہ حنفی میں کس درجہ کی ہے؟ کیا اس کتاب سے فتویٰ دینا،مسائل بتانا اور خودعمل کرنا جائز ہے؟ 

جواب

المحیط البرہانی کا ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی سے شائع شدہ نسخہ زیادہ بہتر ہے، اسی  نسخے کی ابتدا میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم کا مقدمہ ہے، یہ فقہ حنفی کی اہم کتابوں میں سے ہے  ۔

علامہ ابن نجیم اور علامہ ابن عابدین شامی رحمہما اللہ وغیرہ حضرات نے  ’’المحیط البرہانی‘‘ سے فتویٰ دینے سے منع کیا ہے، لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ کتاب غیر معتبر اور غیر مفتی بہ مسائل کا مجموعہ ہے، بل کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب  تالیف کے دور سے ہی نایاب تھی اور نایاب کتابوں سے فتویٰ دینا اصولِ افتاء کے خلاف ہے۔

مولانا عبدالحئی لکھنوی ’’الفوائد البھیۃ‘‘ میں اس شبہ اور اس کا جواب ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’قال ابن نجیم المصري صاحب الأشباہ في رسالته  التي ألّفھا في صورۃ وقف اختلف الأجوبة فیھا رادًا علی بعض المخالفین المستندین بمسألة مذکورۃ في المحیط البرھاني: "إنه نقلھا من المحیط البرھاني، وقد قال ابن أمیر الحاج في شرح منیة المصلي: إنه مفقود في دیارنا، وعلی تقدیر أنه ظفر به دون أھل عصرہ لم یحل النقل منه، ولا الإفتاء عنه، صرّح به في فتح القدیر من کتاب القضاء أنه لایحل النقل من الکتب الغریبة، وقد رأیت ھذہ العبارۃ بعینھا و حروفھا في المحیط الرضوي، فأخذھا منه، ونسبھا إلی البرھاني ظنّا منه  أنه لایطلع علی کذبه  أحد" … الخ (ص:۱۹۰)

مولانا لکھنوی رحمہ اللہ بھی ابتدا میں اس کتاب سے فتوی دینے  کے قائل نہ تھے،  لیکن  بعد میں انہوں نے رجوع  کر لیا تھا، چنانچہ مولانا لکھتے ہیں:

’’ومن ھذا القسم: المحیط البرھاني،فإنّ مؤلفه وإن کان فقیھًا جلیلًا معدودًا في طبقة المجتھدین في المسائل، لکنّھم نصوا علی أنه لایجوز الإفتاء منه؛ لکونه مجموعًا للرطب والیابس‘‘.

وفي الهامش:

’’قد وفقني الله  تعالی  بعد کتابة  ھذہ الرسالة بمطالعة ’’المحیط البرھاني‘‘ ، فرأیته لیس جامعًا للرطب والیابس، بل فیه مسائل منقحة وتفاریع مرصعة، ثم تأمّلت في عبارۃ فتح القدیر وعبارۃ ابن نجیم، فعلمتُ أن المنع من الإفتاء منه لیس لکونه جامعًا للغث والسمین، بل لکونه مفقودًا نادرالوجود في ذلك العصر، وھذا أمر یختلف بحسب اختلاف الزمان فلیحفظ ھذا۔‘‘ (النافع الکبیر: ص ۲۸، الفوائد البھیة : ص۲۰۶)

بہر کیف ہمارے زمانے میں چوں کہ یہ کتاب متداول اور دست یاب ہے، اس لیے اس سے فتوی دینا جائز ہے، البتہ افتاء کا معاملہ نازک ہے، کسی قول پر فتوی دینا مفتی کا کام ہے، عوام کو، بلکہ وہ عالم جس کی ممارست فتویٰ سے نہ ہو اسے عمل کے لیے محض کتابوں کے بجائے اہلِ حق میں سے کسی مستند مفتی سے رجوع کرنا چاہیے، بہت سی معتبر اور فتوے کی کتابوں میں مختلف اقوال درج ہوتے ہیں، ان میں باریک فرق یا احوال کا فرق ماہر مفتی کرسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144202201489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں