بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللهم اغفرلي وللمؤمنين والمؤمنات والمسلمين والمسلمات دعا کا ثبوت، غسل سے متعلق ایک مسئلہ، بیچنے اور استعمال کی نیت سے خریدی گئی چیز کا حکم


سوال

1۔روزانہ پچیس یا ستائیس مرتبہ "اللهم اغفرلي وللمؤمنين والمؤمنات والمسلمين والمسلمات'' پڑھنے والا مستجاب الدعوات ہو جاتا ہے، اس کا ثبوت حدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیے۔

2۔غسل فرض ہوگیا، پھر غسل کی نیت سے منہ اور ناک میں پانی ڈالا، پھر سوگیا، باقی غسل سو کر اٹھنے کے بعد کیا، اس طور پر کہ پہلے پیشاب کیا، پھر غسل کیا، کیا غسل ہوگیا یا نہیں؟

3۔کوئی گاڑی یاپلاٹ یابندوق اس نیت سے خریدی کہ اگر اچھی  قیمت لگی تو بیچ دوں گا، اور استعمال کا بھی ارادہ کیا، تو ان چیزوں کی زکات نکالی جائے گی یا نہیں؟

جواب

1۔حدیث کی مختلف کتب میں یہ روایت ملتی ہے، جیسا کہ "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"  میں ہے:

"وعن أبي الدرداء قال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: من ‌استغفر ‌للمؤمنين ‌والمؤمنات ‌كل ‌يوم سبعا وعشرين مرة، أو خمسا وعشرين مرة - أحد العددين - كان من الذين يستجاب لهم، ويرزق بهم أهل الأرض.

رواه الطبراني، وفيه عثمان بن أبي العاتكة وقال فيه: حدثت عن أم الدرداء، وعثمان هذا وثقه غير واحد، وضعفه الجمهور، وبقية رجاله المسمين ثقات."

(كتاب التوبة، ج:١٠، ص:٢١٠، رقم:١٧٦٠٠، ط:مكتبة القدسي)

"ترجمہ:حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:جو شخص مؤمن مرد اور مؤمن عورتوں کے لیے ہر روز ستائیس یا پچیس مرتبہ (دونوں میں سے کوئی ایک عدد فرمایا)مغفرت طلب کرتا ہے، وہ ان لوگوں میں سے ہوجاتا ہے جن کی دعا قبول کی جاتی ہے، اور جن کی برکت سے زمین والوں کو رزق دیا جاتا ہے۔"

فیض القدیر میں ہے:

"(من استغفر) الله (للمؤمنين والمؤمنات كل يوم سبعا وعشرين مرة كان من الذين يستجاب لهم) الدعاء (ويرزق بهم أهل الأرض) قال الغزالي: ورد في فضل الاستغفار أخبار خارجة عن الحصر حتى قرنه الله ببقاء الرسول فقال: {وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون} وقال بعضهم: كان لنا أمانان أحدهما كون الرسول فينا فذهب وبقي الاستغفار فإن ذهب هلكنا

(طب عن أبي الدرداء) قال الهيثمي: فيه عثمان بن أبي عاتكة وثقه غير واحد وضعفه الجمهور وبقية رجاله ثقات."

(حرف الميم، ج:٦، ص:٥٧، رقم:٨٤٢٠، ط:المكتبة التجارية الكبرى)

2۔واضح رہے کہ غسل کی سنتوں میں سے موالاۃ بھی ہے، یعنی غسل کے تمام امور پے درپے انجام دیے جائیں، بلا کسی عذر غسل کے افعال میں فاصلہ نہ کیا جائے، صورتِ مسئولہ میں غسل تو ہوگیا، البتہ مسنون طریقے پر نہیں ہوا۔ 

3۔اگر کوئی چیز تجارت کی نیت سے خریدی ہو اور پھر اس میں ذاتی استعمال کی نیت کرلی  جائے، تو ایسی چیز محض تجارت کی نیت کی وجہ سے مالِ تجارت شمار نہیں ہوگی، صورتِ مسئولہ میں زکات کا سال مکمل ہونے تک اگر مذکورہ اشیاء، گاڑی، پلاٹ اور بندوق فروخت نہ ہوئی ہوں تو ان کی مالیت کو زکات کے حساب میں شامل نہیں کیا جائے گا، البتہ فروخت ہوجانے کے بعد حاصل شدہ کل یا اس میں سے بعض آمدنی  اگر اگلا سال مکمل ہونے تک محفوظ  رہے تو اس کو زکات کے حساب میں شامل کیا جائے گا۔ 

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"وسننه ... (والولاء) بكسر الواو: غسل المتأخر أو مسحه قبل جفاف الأول بلا عذر حتى لو فني ماؤه فمضى لطلبه لا بأس به، ومثله الغسل والتيمم، وعند مالك فرض.

(قوله: حتى لو فني ماؤه إلخ) بيان للعذر (قوله: لا بأس به) أي على الصحيح سراج (قوله: ومثله الغسل والتيمم) أي إذا فرق بين أفعالهما لعذر لا بأس به كما في السراج، ومفاده اعتبار سنية الموالاة فيهما."

(كتاب الطهارة، سنن الوضوء، ج:١، ص:١٢٣، ط:سعيد)

 فتح القدیر میں ہے:

"(قوله لاتصال النية بالعمل) حاصل هذا الفصل أن ما كان من أعمال الجوارح فلا يتحقق بمجرد النية، وما كان من التروك كفى فيه مجردها فالتجارة من الأول فلا يكفي مجرد النية بخلاف تركها."

(كتاب الزكاة، ج:٢، ص:١٦٨، ط:دار الفكر)

(2)غمز عیون البصائر فی شرح الأشباہ والنظائر میں ہے:

"ولا بد أن تكون مقارنة للتجارة، فلو اشترى شيئا للقنية ناويا أنه إن وجد ربحا باعه لا زكاة عليه.

قوله: ولا بد أن تكون إلخ: لكن لا تجب الزكاة إلا إذا اتجر لأن التجارة فعل لا يتم بمجرد النية وتحقيق الكلام في هذا المقام أن الزكاة قد اعتبر في نصابها النماء والنماء على قسمين: خلقي وفعلي. فالأول الذهب والفضة والثاني ما يكون بإعداد العبد كالعروض. فالأول لا يحتاج إلى نية التجارة والثاني يحتاج إليها، غير أن التجارة من أعمال الجوارح فلا يتحقق بمجرد النية بل لا بد من اتصالها بعمل هو تجارة، حتى لو اشترى ثيابا للبذلة ثم نوى بها التجارة لا تكون لها ما لم يبعها ليكون بذلها للتجارة، بخلاف ما لو نوى فيما هو للتجارة أن يكون للخدمة حيث يصح بمجرد النية لأن التروك يكتفى فيها بمجردها."

(الفن الأول قول في القواعد الكلية، القاعدة الأولى لا ثواب إلا بالنية، ج:١، ص:٧٠، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں