بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالیٰ کا اسم أعظم


سوال

اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم کون سا ہے؟

جواب

 اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے بعض وہ ہیں جن کو اس لحاظ سے خاص عظمت و امتیاز حاصل ہے کہ جب ان کے ذریعہ دعا کی جائے تو دعا كی  قبولیت کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے ،ان اسماء  کو حدیث میں ”اسم اعظم“  کہا گیا ہے ، لیکن  صراحت کے ساتھ ان کو متعین نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ کسی درجہ میں ان کو مبہم رکھا گیا ہے ، نیز  احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ایک ہی اسمِ پاک “اسمِ اعظم” نہیں ہے بلکہ متعدد وہ  اسماءِ حسنیٰ کو جن سے اللہ تعالیٰ کا جامع وصف مفہوم ہوتا ہے، اور ملاء اعلیٰ اور ہر دور میں جن سے اللہ تعالیٰ پکارا جاتا ہے ، اس نام کو  “اسمِ اعظم” کہا گیا ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے:

"عن عبد الله بن بريدة الأسلمي، عن أبيه، قال: سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يدعو وهو يقول: «اللهم إني أسألك بأني أشهد أنك أنت الله لا إله إلا أنت الأحد الصمد، الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد» ، قال: فقال: «والذي نفسي بيده لقد سأل الله باسمه الأعظم الذي إذا دعي به أجاب، وإذا سئل به أعطى» ."

(سنن الترمذي (5 / 515)  باب جامع الدعوات، ط: مطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

ترجمہ : "حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو اس طرح دُعا کرتے ہوئے سنا ، وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کر رہا تھا : ”اے اللہ! میں اپنی حاجت تجھ سے مانگتا ہوں بوسیلہ اس کے کہ بس تو اللہ ہے ، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں ،تو ایک اور یکتا ہے ، بالکل بےنیاز ہے ، اور سب تیرے محتاج ہیں ، نہ کوئی تیری اولاد ، نہ تو کسی کی اولاد اور نہ تیرا کوئی ہمسر“ ،رسول اللہﷺ نے (جب اس بندے کو یہ دُعا کرتے سنا تو) فرمایا کہ : اس بندے نے اللہ سے اس کے اس ”اسم اعظم“ کے وسیلہ سے دعا کی ہےکہ  جب اس کے وسیلہ سے اس سے مانگا جائے تو وہ دیتا ہے ، اور جب اس کے وسیلہ سے دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے ۔ "

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"عن أنس، أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا ورجل يصلي، ثم دعا: اللهم إني أسألك بأن لك الحمد، لا إله إلا أنت المنان، بديع السموات والأرض، يا ذا الجلال والإكرام، يا حي يا قيوم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لقد دعا الله باسمه العظيم، الذي إذا دعي به أجاب، وإذا سئل به أعطى»."

(سنن أبي داود (2 / 79)باب الدعاء،ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

ترجمہ :” حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھا اور ایک بندہ وہاں نماز پڑھ رہا تھا ، اس نے اپنی دعا میں عرض کیا : “اے اللہ ! میں تجھ سے اپنی حاجت مانگتا ہوں بوسیلہ اس کے کہ ساری حمد و ستائش تیرے ہی ليے ہے ، کوئی معبود نہیں تیرے سوا ، تو نہایت مہربان اورمحسن ہے ، زمین و آسمان کا پیدا فرمانے والا ہے ، اے ذوالجلال والاکرام ! اے حیّ ،اے قیّوم !، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : ”اس بندے نے اللہ کے اُس اسمِ اعظم کے وسیلہ سے دعا کی ہے کہ  جب   اس سے الله تعالیٰ  سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے ، اور جب اس کے وسیلہ سے مانگا جائے تو عطا فرماتا ہے۔ “

اسی طرح ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"عن أسماء بنت يزيد، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اسم الله الأعظم في هاتين الآيتين {وإلهكم إله واحد لا إله إلا هو الرحمن الرحيم} [البقرة: 163] ، وفاتحة سورة آل عمران: {الم الله لا إله إلا هو الحي القيوم} [آل عمران: 2]."

(سنن أبي داود (2 / 80)باب الدعاء،ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

ترجمہ :" اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :  اللہ تعالیٰ کا ”اسم ِ أعظم“  ان دو آیتوں میں موجود ہے ۔ ایک {وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ}اور دوسری آل عمران کی ابتدائی آیت:  { الم اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ}."

تشریح ..... ان احادیث مبارکہ میں  متعدد اسماءِ الٰہیہ کی خاص ترکیب سے اللہ تعالیٰ کا جو مرکب اور جامع وصف مفہوم ہوتا ہے، اس کو “اسم اعظم” سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ  نے بھی  انہی  احادیث  کی روشنی میں  اللہ تعالیٰ کے درج ذیل اسماء کو ”اسمِ أعظم “ کہا ہے:

"أَنْت الله لَا إِلَه إِلَّا أَنْت الْأَحَد الصَّمد الَّذِي لم يلد، وَلم يُولد، وَلم يكن لَهُ كفوا أحد، وعَلى لَك الْحَمد، لَا إِلَه إِلَّا أَنْت الحنان المنان بديع السَّمَوَات وَالْأَرْض يَا ذَا الْجلَال وَالْإِكْرَام، يَا حَيّ يَا قيوم."

حجة الله البالغة میں ہے :

"واعلم أن الاسم الأعظم الذي إذا سئل به أعطى، وإذا دعي به أجاب هو الاسم الذي يدل على أجمع تدل من تدليات الحق، والذي تداوله الملأ الأعلى أكثر تداول، ونطقت به التراجمة في كل عصر، وقد ذكرنا أن زيدا الشاعر الكاتب له صورة أنه شاعر وصورة أنه كاتب، وكذلك للحق تدليات في موطن من المثال وهذا معنى يصدق على أنت الله لا إله إلا أنت الأحد الصمد الذي لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد، وعلى لك الحمد، لا إله إلا أنت الحنان المنان بديع السموات والأرض يا ذا الجلال والإكرام، يا حي يا قيوم. ويصدق على أسماء تضاهي ذلك."

(2 / 119، من ابواب الإحسان، الأذكار وما يتعلق بها، ط: دارالجيل ، بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100670

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں