بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالیٰ کی صفاتِ متشابہ کے بارے میں اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ


سوال

اہلِ سنّت والجماعت صفاتِ متشابہات یعنی ید، وجہ اس جیسی صفات میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ 

جواب

 واضح رہے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات از قبیل متشابہات ہیں، اور صفاتِ متشابہ سے متعلق اہلِ سنت والجماعت کی رائے درجِ ذیل ہے:

 صفات متشابہات کے بارے میں اہلِ سنت والجماعت میں سے متقدمین کا مذہب تنزیہ مع التفویض ہے، یعنی باری تعالیٰ کے  لیے صفات کو اتباعاً للنصوص ثابت مانا جائے، لیکن اس کے معنی مرادی اور اس کی کیفیت کے بارے میں توقف وسکوت کیا جائے۔ ان میں غور و خوض نہ کیا جائے ۔ اور متاخرین کا مذہب تنزیہ مع التاویل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ الفاظ کا ظاہری مفہوم مراد نہیں؛ کیوں کہ  وہ تشبیہ ( مخلوق کے مانند ہونے) کو مستلزم ہے، اور درجہ احتمال میں ان کے ایسے معنی بیان  کیے جائیں جو اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہیں، اور متاخرین نے تنزیہ مع التاویل کی راہ اس  لیے اختیار کی ہے کہ بیمار ذہن کو مطمئن کیا جائے اور فلسفیانہ اذہان کو قابو میں لایا جائے، ورنہ وہ اللہ کی صفات کے بارے میں گم راہی میں مبتلانہ ہوجائیں۔

اب متاخرین کے نزدیک چوں کہ تنزیہ مع التاویل کا مذہب ہے، اس  لیے  وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بعض صفات میں خصوص اور بعض میں عموم ہوتا ہے،جن صفات میں عموم ہے اور وہ خالق ومخلوق دونوں پر بولے گئے ہوں تو وہ لفظًا تو ایک جیسے ضرور ہوں گے، مگر معنی حقیقی کے اعتبار سے وہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوں گے،  جیسے کہ مختلف روایات میں اللہ تعالیٰ کے لیے آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں ثابت ہے، جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقتاً اس کے آنکھ،کان ،ہاتھ اور پاؤں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جسم اور اعضاء سے پاک ہے، باقی سننا دیکھنااور نصرت کرنا اس کے صفات ہیں، مگر وہ سننے ،دیکھنےاور نصرت کرنے کے لیے بندوں کی طرح کان اور آنکھ اور ہاتھ کا محتاج نہیں ہے، اب وہ کیسے سنتااور دیکھتااور اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے اس کی حقیقت جاننے میں زیادہ غور وخوض نہیں کرنا چاہیے۔

شرح المقاصد في علم الكلام میں ہے:

"( قال: و منها ما ورد به ظاهرالشرع وامتنع حملها على معانيها الحقيقية ) مثل الاستواء في قوله تعالى: {الرحمن على العرش استوى} واليد في قوله تعالى: {يد الله فوق أيديهم } و { ما منعك أن تسجد لما خلقت بيدي} والوجه في قوله تعالى: {و يبقى وجه ربك} والعين في قوله تعالى: {و لتصنع على عيني} و {تجري بأعيننا} فعن الشيخ أن كلا منها صفة زائدة وعن الجمهور وهو أحد قولي الشيخ أنها مجازات فالاستواء مجاز عن الاستيلاء أو تمثيل وتصوير بعظمة الله تعالى واليد مجاز عن القدرة والوجه عن الوجود والعين عن البصر فإن قيل بجملة المكونات مخلوقة بقدرة الله تعالى فما وجه تخصيص خلق آدم صلى الله عليه وسلم سيما بلفظ المثنى وما وجه الجمع في قوله بأعيننا أجيب بأنه أريد كمال القدرة وتخصيص آدم تشريف له وتكريم ومعنى تجري بأعيننا أنها تجري بالمكان المحوط بالكلاءة والحفظ والرعاية يقال فلان بمرىء من الملك ومسمع إذا كان بحيث تحوطه عنايته وتكتنفه رعايته وقيل المراد الأعين التي انفجرت من الأرض وهو بعيد وفي كلام المحققين من علماء البيان أن قولنا الاستواء مجاز عن الاستيلاء واليد واليمين عن القدرة والعين عن البصر ونحو ذلك إنما هو لنفي وهم التشبيه والتجسيم بسرعة وإلا فهي تمثيلات وتصويرات للمعاني العقلية بإبرازها في الصور الحسية وقد بينا ذلك في شرح التلخيص".

(المبحث السابع في صفات اختلف فيها، ج:2، ص:110، ط:دارالمعارف)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں