بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھکنا


سوال

غیر اللہ کے سامنے  جھکنا جائز ہے ؟ اگرچہ استاد کے ادب  کے لئے جھکاجائے اور اگر جھکنا جائز نہیں ہے  توپھر  اس کا کیا حکم ہے کیا یہ شرک ہے ؟

اکثر مارشل آرٹس اکیڈمی میں سکھانے والے اور سیکھنے والے آپس میں جھکتے ہیں ایک دوسرے کے سامنے ،یہ عمل کھیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ جاپانیوں کی روایت ہےجو ان کے ہاں سے چلی آئی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے اس طرح جھکنا کہ رکوع کے قریب ہو جائے یا  اس طرح جھک کر  سلام کرنا شرعاً  ناجائز ہے،اگر یہ تعظیم کی غرض  سے ہو توحرام ہے،  اگر سامنے والے کی تعظیم مقصود نہ ہو تو مکروہ ہے، اور کراہت تحریمی ہے یعنی   حرام کے قریب ہے، احادیث میں اس طرح جھکنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے، لہذا مارشل آرٹ  وغیرہ میں اس عمل سے اجتناب لازم ہے۔

مشکاۃالمصابیح میں ہے:

"(وعن أنس - رضي الله عنه - قال: قال رجل: يا رسول الله! الرجل منا) أي: من المسلمين، أو من العرب (يلقى أخاه) أي: المسلم أو أحدًا من قومه، فإنه يقال له: أخو العرب (أو صديقه) أي: حبيبه وهو أخص مما قبله (أينحني له؟): من الانحناء، وهو إمالة الرأس والظهر تواضعًا وخدمةً (قال: لا) أي: فإنه في معنى الركوع، وهو كالسجود من عبادة الله سبحانه."

(‌‌كتاب الآداب،الفصل الثاني،ج:3،ص:1327،ط:المكتب الإسلامي بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الانحناء للسلطان أو لغيره مكروه لأنه ‌يشبه ‌فعل ‌المجوس كذا في جواهر الأخلاطي.ويكره الانحناء عند التحية وبه ورد النهي كذا في التمرتاشي."

(كتاب الكراهية، الباب الثامن والعشرون في ملاقاة الملوك والتواضع لهم وتقبيل أيديهم،ج:5،ص:368، ط: دار الفكربيروت)

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"وقد يكون محرما، كالانحناء تعظيما لإنسان أو حيوان أو جماد. وهذا من ‌الضلالات ‌والجهالات. وقد نص الفقهاء على أن الانحناء عند الالتقاء بالعظماء ككبار القوم والسلاطين تعظيما لهم - حرام باتفاق العلماء. لأن الانحناء لا يكون إلا لله تعالى تعظيما له، ولقوله لرجل قال له: يا رسول الله، الرجل منا يلقى أخاه أو صديقه أينحني له؟ قال صلى الله عليه وسلم: لا.أما إن كان ذلك الانحناء مجرد تقليد."

( ‌‌الحكم التكليفي،ج: 6،ص:322،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية الكويت)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

’’جھک کر سلام کرنا منع ہے‘‘۔

(ج:24،ص:331ط:ادارہ الفاروق کراچی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144606101816

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں