بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص نام


سوال

اللہ کے لیے خاص نام کون سے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ تبارک وتعالٰی کے وہ صفاتی نام جو اللہ کے ساتھ خاص ہیں وہ یہ ہیں:

" الرحمن،السبحان، القدوس، الجبار، المتکبر، الخالق، البارئ، الغفار، القھار، الرزاق، الوهاب، الخلاق، الفتاح، القیوم، الرب،  الغفور، الأحد، الصمد، الحق، القادر، المحیی،الممیت، الأول، الآخر، الباطن." وغیرہ۔

 یہ وہ اسماء حسنی ہیں  کہ بندوں کے لیے اس کا استعمال  جائز نہیں البتہ اگر ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" لگانا ضروری ہے  ۔

وہ اسماء جو اللہ کے صفات خاصہ میں سے نہیں ؛بلکہ وہ اسماء اللہ تعالی کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں ان کو صفات مشترکہ بھی کہا جاتا ہے اور ان کے متعلق یہ تفصیل ہے کہ اگر قرآن وحدیث ،تعامل ِ امت یا عرف ِ عام میں ان اسماء سے غیر اللہ کا نام رکھنا ثابت ہو تو ایسا نام رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں مثلا:عزیز، علی، کریم، رحیم، عظیم، رشید، کبیر، بدیع، کفیل، هادی، واسع، حکیم  وغیرہ ۔

اور جن صفات ِ مشترکہ سے غیر اللہ کا نام رکھنا قرآن وحدیث اور مسلمانوں کے تعامل سے ثابت نہ ہو تو ان صفات پر غیر اللہ کا نام رکھنے سے پرہیز لازم ہے اور اگر استعمال کرنا ہے تو لفظ "عبد" کی اضافت کے ساتھ اس کو استعمال کیا جائے کیوں کہ اسماء حسنی میں اصل یہ ہے کہ ان سے غیر اللہ کا نام نہ رکھا جائے ۔

(مستفاد از فتاوی عثمانی ،ج:1،ص:50،مکتبہ معارف القرآن )

اس کی تفصیل میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

" اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار  وغیرہ" قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز اور  گناہِ کبیرہ ہے، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘

(ماخوذ از تفسیر معارف القرآن ،ج:4،ص:132،مکتبہ معارف القرآن )

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"وذكر غير واحد من العلماء ‌أن ‌هذه ‌الأسماء منها ما يرجع إلى صفة فعلية ومنها ما يرجع إلى صفة نفسية ومنها ما يرجع إلى صفة سلبية. ومنها ما اختلف في رجوعه إلى شيء مما ذكر وعدم رجوعه وهو الله والحق أنه اسم للذات وهو الذي إليه يرجع الأمر كله، ومن هنا ذهب الجل إلى أنه الاسم الأعظم، وتنقسم قسمة أخرى إلى ما لا يجوز إطلاقه على غيره سبحانه وتعالى كالله والرحمن وما يجوز كالرحيم والكريم وإلى ما يباح ذكره وحده كأكثرها وإلى ما لا يباح ذكره كذلك كالمميت والضار فإنه لا يقال: يا مميت يا ضار بل يقال: يا محيي يا مميت ويا نافع يا ضار، والذي أراه أنه لا حصر لأسمائه عزت أسماؤه في التسعة والتسعين۔۔۔۔۔۔۔"

(سورۃ الاعراف،ج:5،ص:115،دارالکتب العلمیۃ)

تحفۃ المودود باحکام المولود میں ہے :

"ومما يمنع تسمية الإنسان به أسماء الرب تبارك وتعالى فلا يجوز التسمية بالأحد والصمد ولا بالخالق ولا بالرازق وكذلك سائر الأسماء المختصة بالرب تبارك وتعالى ولا تجوز تسمية الملوك بالقاهر والظاهر كما لا يجوز تسميتهم بالجبار والمتكبر والأول والآخر والباطن وعلام الغيوب۔۔۔۔۔وأما الأسماء التي تطلق عليه وعلى غيره كالسميع والبصير والرؤوف والرحيم فيجوز أن يخبر بمعانيها عن المخلوق ولا يجوز أن يتسمى بها على الإطلاق بحيث يطلق عليه كما يطلق على الرب تعالى."

(الباب الثامن فی ذکر تسمیتہہ واحکامہا۔۔۔۔،ص:125،دارالبیان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100163

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں