بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالی کو گواہ بنا کر نکاح کرنے کا حکم


سوال

کئی سال پہلے ایک عاقل و بالغ لڑکے اور لڑکی نے آپس میں نکاح کا فیصلہ کیا۔ نکاح والے دن لڑکا اکیلا آیا اور لڑکی سے کہا کہ میں نے ایک عالمِ دین سے پوُچھا ہے اور اُنہوں نے کہا ہے کہ اللّہ کو گواہ بنا کے نکاح ہو سکتا ہے اور ہمیں قاضی کی بھی ضرورت نہیں، سُنت کے مطابق ہم  اپنا نکاح خُود پڑھا سکتے ہیں۔ لڑکی کُچھ جھجھکی لیکن لڑکے کے اصرار پر اس کی بات پر یقین کر لیا اور مان گئی۔ دونوں نے اللّہ کو گواہ بنا کر ایک دوسرے سے ایجاب و قبول کر لیا۔ لڑکے نے لڑکی کو دس ہزار روپے حق مہر بھی دیا اور ایک سادہ پیپر پر لکھ کر بھی دے دیا کہ میں نے اللّہ کو گواہ بنا کر فلاں لڑکی کو اپنے نکاح میں لیا ہے اور اس پر دونوں نے دستخط بھی کیے۔ اس کے بعد میاں بیوی والے تعلقات بھی قائم کیے۔ لیکن لڑکی کا ضمیر مطمئن نہ تھا اس لیے اس نے موقع ملتے ہی شہر بدل لیا اور لڑکے سے صحیح نکاح کا اصرار شروع کر دیا۔ کئی سال تک وہ بھی وعدے کرتا رہا، وہ کبھی کبھی ملتے بھی رہے اور لڑکا یہی کہتا رہا کہ ہماری نیت (جو کہ گناہ سے خود کو بچانے کے لیے نکاح کرنے کی تھی) صحیح تھی اور جس بات پہ  اللہ کو گواہ بنا لیا جائے اس پر شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ لیکن جب دونوں کے خاندانوں کو اس بات کا علم ہوا اور لڑکے سے پوچھا گیا تو نہ صرف وہ مُکر گیا، آپ کے پاس سے یہ فتویٰ بھی لایا کہ ایسے نکاح نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ ہیں کہ:

۱) جب اللّہ موجود ہے تو وہ گواہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ کیا  اللہ ایسی صورت میں بھی گواہ نہیں ہو سکتا جہاں کوئی تیسرا موجود ہی نہ ہو؟

۲) شروع میں لڑکے نے لڑکی کو دھوکا دیا،  لیکن بعد میں لڑکی نے اُن وعدوں کے آسروں پہ جو اُس نے کیے تھے کہ ہم جلد ہی صحیح نکاح کر لیں گے، رشتہ ختم نہیں کیا۔ اب ایسی صورت میں کون کتنا گناہ گار ہے اور اس گناہ کا کیا کفارہ ہے؟

۳) اللّہ کو گواہ بنا کے نکاح ہوا یا نہیں؟ ایسی صورت میں طلاق کی کیا حیثیت ہے؟ کیا لڑکی بغیر طلاق لیے کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے؟

جواب

1- واضح رہے کہ نکاح  منعقد ہونے کے لیے مجلسِ عقد میں کم از کم دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہ ہونا ضروری ہے، صرف اللہ تعالی کو گواہ بنانا کافی نہیں ہے اور اللہ تعالی کو گواہ بناکر لڑکا اور لڑکی کا تنہائی میں ایجاب و قبول کرنے سےنکاح نہیں ہوتا؛ لہذ ا صورتِ  مسئولہ میں سائلہ اور اس لڑکے کا اللہ تعالی کو گواہ بنا کرنکاح کرنے سے نکاح   صحیح نہیں ہوا  ،  اس نکاح کی وجہ سے لڑکے اور لڑکی کے  لیے ازدواجی تعلق قائم کرنا حلال نہیں تھا؛ اس لیے  اب فورًا  جدا ہونے کے بعد اللہ تعالی سے توبہ استغفار کریں۔

2- بصورتِ صدقِ واقعہ  دونوں  ہی گناہ گار ہوئے، لڑکی کو بھی اس اقدام سے پہلے درست علم حاصل کرنا ضروری تھا، اور  لڑکے  نے دھوکادہی کے ذریعے ناجائز کام کو  عالم اور شریعت سے منسوب کرکے مزید گناہ کیا، اور پھر ان باتوں کو جھٹلا کر جھوٹ  کا مرتکب بھی ہوا، اب دونوں کے لیے کفارہ یہ ہے کہ  سچے دل سے توبہ و استغفار کریں۔

3- چوں کہ مذکورہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا، اس لیے طلاق کی حاجت نہیں ہے، مذکورہ لڑکے سے آخری مرتبہ ملنے کے بعد اگر ایک ماہواری آچکی ہے تو لڑکی طلاق لیے بغیر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

ملحوظ رہے  کہ گواہ کا مطلب یہ ہے کہ مدعی کے دعوی کو ثابت کرنے کے لیے عدالت میں جج کے سامنے جاکر جو کچھ دیکھا ہے وہ بتائے، ہم انسان اس بات کے مکلف ہیں کہ اپنی ہی جنس کے افراد میں سے مخصوص شرائط کے حامل افراد کو گواہ مقرر کریں جس کی گواہی عدالت میں معتبر ہو، چناں چہ کرامًا کاتبین اور دیگر فرشتے جو ہر انسان کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اسی طرح تکوینی امور پر مامور دیگر فرشتے یا جنات جو انسانوں کے محافل میں موجود ہوتے ہیں  انہیں گواہ مقرر کرکے نکاح نہیں کیا جاسکتا،  اسی طرح غیر مسلم شخص اگرچہ مجلسِ نکاح میں موجود ہو وہ مسلمان کے نکاح کے لیے گواہ نہیں بن سکتا،  الغرض اللہ  جلّ سبحانہ و تعالی  بلاشبہ ہر جگہ موجود اور حاضر و ناظر ہیں، لیکن کسی عدالت کو یہ قدرت اور حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو گواہی دینے کے لیے بلائے؛ اس لیے محض اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر نکاح کرنے سے نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"(ولا ينعقد نكاح المسلمين) بصيغة المثنى (إلا بحضور شاهدين حرين بالغين عاقلين مسلمين) سامعين معا قولهما فاهمين كلامهما على المذهب كما في البحر."

(کتاب النکاح جلد 3 ص: 3 ط: المکتبة العلمیة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"إذا وقع النكاح فاسدا فرق القاضي بين الزوج والمرأة فإن لم يكن دخل بها فلا مهر لها ولا عدة وإن كان قد دخل بها فلها الأقل مما سمى لها ومن مهر مثلها إن كان ثمة مسمى وإن لم يكن ثمة مسمى فلها مهر المثل بالغا ما بلغ وتجب العدة ويعتبر الجماع في القبل حتى يصير مستوفيا للمعقود عليه وتعتبر العدة من حين يفرق بينهما عند علمائنا الثلاثة كذا في المحيط."

(کتاب النکاح , الباب الثامن فی النکاح الفاسد و احکامه جلد 1 ص: 330 ط: دارالفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"نکاح کے لیے دومردوں  یا ایک مرد اور دو عورت کا موجود ہونا ضروری ہے ، صرف اللہ میاں کی گواہی صحت نکاح کے لیے کافی نہیں ، اللہ میاں تو ہر چیز کو دیکھتے ہیں حلال ہو یا حرام۔"

(باب النکاح الصحیح جلد ۱۰ ص:۶۱۶ ط: دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100813

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں