بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالی کی رحمت سےناامیدنہیں ہوناچاہیے


سوال

میں بہت ہی گناہ گار انسان ہوں، جسم کا ہر ہر بال گناہ میں جکڑا ہوا ہے ،توبہ بھی کر چُکا ہوں بالکل سچے  دل سے رو رو کر،  لیکن پھر بھی دل مطمئن نہیں ہو رہا ہے؛ کیوں کہ  علم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے بہت سارے گناہ  کیے، نفسانی خواہشات ہمیشہ سے غالب رہا ،توبہ بھی کر چکا ہوں،  سارے گناہ بھی چھوڑ چکا ہوں،  نمازاور قرآن کو کثرت سے پڑھتا ہوں، لیکن دل میں خیال آتا ہے  کہ تمہارا گناہ نا قابلِ معافی ہے؛ کیوں کہ  میں نے چھپ کر گناہ کیا، علم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے گناہ کو دوستوں میں ہنسی ومذاق میں بتا دیا ،ایک حدیث میں ایسے گناہ کی نا قابلِ معافی کہا گیا ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ راضی اللّٰہ عنہ ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا: میری ساری امت کو معاف کیا جائے گا سوائے  اعلانیہ اور کھلم کھلا کرنے والوں کے، اور یہ بھی اعلانیہ گناہ ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی گناہ کاکام کرے، حالانکہ اللہ تعالی نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے، مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا، رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی، تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔  میں ہر کچھ کرنے کو تیار ہوں پوری زندگی اللہ کے راستے میں قربان کرنے کو تیار ہوں،  بس میری معافی ہو جاۓ ،کیا توبہ کے بعد بھی معاف نہیں ہوگا ؟یہ حدیثِ صحیح ہے يا ضعیف؟میں برباد ہو گیا دعا  کیجیے! اللہ جہنّم سے بچا لے ہم کو،بہت ٹوٹ چکا ہوں ہار چکا ہوں اپنی زندگی سے کیا غلطی کر بیٹھے ہم ،اب تو حال یہ ہے کی اپنے موت کا انتظار کر رہا ہوں ،نا اُمیدی اور مایوسی پیچھا نہیں  چھوڑ رہی ہے !

جواب

واضح رہےاللہ تعالی نے انسان کو خیر وشر دونوں کے قبول کرنے کی صلاحیت دے کر پیدا فرمایا ہے،لہذا اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا خیر و شر دونوں میں میں سے کسی ایک میں مبتلاء ہونا ایک بدیہی امر ہے،اور پھر جس طرح خیر کی توفیق کے بعد شکر ادا کرنے کا حکم ربی ہے، اسی طرح اگر کبھی شر کا پہلو غالب ہوجائے اور انسان کوئی گناہ یا برائی کربیٹھے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے توبہ اور رجوع الی اللہ کا دروازہ کھول رکھاہے،اور جب وہ دروازہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بند نہیں تو انسان کا مایوس ہوکر بیٹھ جانا تو سراسر نادانی ہے، "حديث شريف ميں ہے: قال رسول الله: ((كل بني آدم خطاء، وخير الخطائين ‌التوابون))  ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بنی آدم خطاء کار ہے، اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں"۔

(مشكاة المصابيح ،كتاب الدعوات،باب الاستغفاروالتوبة ،ج:1،ص:355،ط:بشرى كراتشي)

لہذا  سائل کو  چاہیےگناہ کے بعد ناامید نہ ہو ، اور گناہ کیساتھ گناہ کی طرف لے جانے والے اسباب سے بھی دوری اختیار کرے،لہذا ہرشخص کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیےکہ اللہ تعالی اپنےبندوں کومعاف کرتےکرتےنہیں تھکتاتوبندے  کوچاہےکہ توبہ کرتےکرتےنہ تھکےکیوں کہ معافی تلافی کی مہلت آخری سانس تک ملی ہوئی، اس سے جیتے جی فائدہ نہ اٹھایا تو آخرت میں پچھتاوے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا،اوربندے  سےجتنابھی بڑے سے بڑاگناہ سرزد  ہوجائے جب وہ اللہ سےمعافی مانگ کرصدق سےتوبہ کرلے تواللہ تعالی اس کےاس گناہ کو معاف کردیتاہے،حدیث شریف میں ہے:"أنس بن مالك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله تبارك وتعالى: يا ابن آدم إنك ما دعوتني ورجوتني غفرت لك على ما كان فيك ولا أبالي، يا ابن آدم لو بلغت ذنوبك ‌عنان ‌السماء ثم استغفرتني غفرت لك، ولا أبالي، يا ابن آدم إنك لو أتيتني بقراب الأرض خطايا ثم لقيتني لا تشرك بي شيئا لأتيتك بقرابها مغفرة."ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایااللہ تعالی فرماتاہےکہ اےابن آدم جب تک تومجھ سےگناہوکی معافی مانگتارہےگااورمجھ سےامیدرکھےگامیں تجھےبخشوں گاتوجوبڑاکام بھی کیاہوگااورمجھ کواس کی پرواہ نہیں ہوگی یعنی توچاہےکتناہی بڑاگنہگارہوتجھےبخشامیرےنزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے،اےابن آدم اگرتیرےگناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی ہنچ جائیں اورتومجھ سےبخشش چاہےتومیں تجھ کوبخش دوں گا،اورمجھ کواس کی پرواہ نہیں ہوگی ،اےابن آدم اگرتومجھ سےاس حال میں ملےکہ تیرےساتھ گناہوں سےبھری ہوئی زمین ہوتومیں تیرےپاس بخشش مغفرت سےبھری ہوئی زمین کولےکرآؤں گا۔بشرطیکہ تونےمیرےساتھ کسی کوشریک نہ کیاہو،(یعنی شرک میں مبتلا نہ ہو)

(مشكاة المصابيح ،كتاب الدعوات،باب الاستغفاروالتوبة ،ج:1،ص:356،ط:بشرى كراتشي)

اور جب کسی بندہ سےگناہ سرزد ہوتاہےپھروہ ندامت، شرمندگی اور اللہ کے نزدیک جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے اور اپنے کو مجرم اور خطاوار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا اور آئندہ کے لیے توبہ کرتا ہے تواس کے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور وہ اللہ کی نظر میں اتنا محبوب اور پیارا انسان ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو، قرآن مجید میں توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کے لیے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے، ارشاد باری ہے انَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ ویُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ“ (بقرہ، آیت :222) یقیناً اللہ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتی ہے  صاف پاک رہنے والوں سے۔

(بیان القرآن ،ج:1ص:128،ط:میرمحمد)

غلطی اور گناہ کا احساس اور پھر گریہ و زاری اللہ کو بہت پسند ہے، جب کوئی انسان جرم اور گناہ کرنے کے بعداپنے مالک حقیقی کے سامنے روتا ہے تو وہ اس سے بے انتہا خوش ہوتا ہے گویا اس نے اپنی بندگی، عاجزی اور اللہ کی عظمت کااعتراف کرلیا اور یہی وہ تصور ہے جس کے استحکام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب اور بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"وعن الحارث بن سويد قال ..... : سمعت رسول الله ﷺ يقول: «الله أفرح بتوبة عبده المؤمن من رجل نزل في أرض دوية " مهلكة، معه راحلته، أي أرضى عليها طعامه وشرابه، فوضع رأسه، فنام نومة، فاستيقظ وقد ذهبتُ راحلته، فطلبها حتى إذا اشتد عليه الحر والعطش أو ما شاء الله، قال: أرجع إلى مكاني الذي كنت فيه، فأنام حتى أموت، فوضع رأسه على ساعده ليموت، فاستيقظفإذا راحلته عنده، عليها زاده وشرابه، فالله أشد فرحا بتوبة العبد المؤمن هذا براحلته وزاده». روى مسلم المرفوع إلىرسول اللہ ﷺ منه فحسب، وروى البخاري الموقوف على ابن مسعود أيضا."

"ترجمہ:اللہ تعالیٰ اپنے موٴمن بندہ کی توبہ سے اتنا خوش ہوتا ہے جیساکہ وہ سوار جس کی سواری کھانے، پانی کے ساتھ کسی چٹیل میدان میں کھوجائے اور وہ مایوس ہوکر ایک درخت کے نیچے سوجائے، جب آنکھ کھلے تو دیکھے کہ وہ سواری کھڑی ہے ۔"

(مشكاة المصابيح ،كتاب الدعوات،باب الاستغفاروالتوبة ،ج؛1،ص:360،ط:بشرى كراتشي)

لہذا چھوٹےبڑےہرقسم کاگناہ ہونےسےاللہ تعالی کی رحمت سےناامیدنہیں ہوناچاہے،گناہ جتنابھی بڑااورزیادہ ہولیکن اللہ تعالی کی رحمت سےزیادہ نہیں ہے،اللہ کی رحمت اپنی ذاتِ پاک کی طرح اس کی حداورانتہانہیں ہے،اللہ تعالی نےقرآن مجیدمیں جگہ جگہ اپنےبندوں کوناامیدی اوراللہ کی رحمت سےمایوسی سےمنع فرمایاچنانچہ قرآن مجیدمیں ہے:

"قُلْ يَا عِبَادِىَ الَّـذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْـمَةِ اللّـٰهِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُـوْبَ جَـمِيْعًا  ۚ اِنَّهُ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِـيْمُ (53)سورہ زمر" 

"ترجمہ :آپ کہہ دیجئےکہ اےمیرےبندوں جنہوں نےاپنےاورپرزیادتیاں کی ہیں کہ تم خداکی رحمت سےناامیدمت ہوبالیقین خداتعالی تمام گزشتہ گناہوں کومعاف فرمادےگا،واقعی وہ بڑابخشنےوالابڑی رحمت والاہے۔"

(بیان القرآن،پارہ؛24،ج:3،ص:302،ط:رحمانیہ)

اسی دوسری جگہ میں اللہ تعالی نےفرمایا:

"أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ» ‏‏‏‏ [التوبة:104]"

"ترجمہ :کیا ان کو خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے اور (کیا ان کو) یہ خبر نہیں کہ اللہ ہی توبہ کرنے کی صفت اور رحمت کرنے کی صفت میں کامل ہے۔"

(بیان القرآن،پارہ 11،ج:2،ص:157،ط:رحمانیہ)

ایک اورجگہ میں اللہ تعالی کاارشادہے:

"وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ‌ اللَّـهَ يَجِدِ اللَّـهَ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا» [4-النساء:110] ‏‏‏‏"

"ترجمہ:اور جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان کا ضرر کرے پھر اللہ تعالیٰ سے معافی چاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بڑی مغفرت کرنے والا بڑی رحمت والا پائے گا۔"

(بیان القرآن ،پارہ:5،ج:1،ص:404،ط:رحمانیہ)

نیزحدیث شریف میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :  إن عبدا أذنب ذنبا فقال : رب أذنبت فاغفره فقال ربه أعلم عبدي أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به ؟ غفرت لعبدي ثم مكث ما شاء الله ثم أذنب ذنبا فقال : رب أذنبت ذنبا فاغفره فقال ربه : أعلم عبدي أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به ؟ غفرت لعبدي ثم مكث ما شاء الله ثم أذنب ذنبا قال : رب أذنبت ذنبا آخر فاغفر لي فقال : أعلم عبدي أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به ؟ غفرت لعبدي فليفعل ما شاء."

"ترجمہ:حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا  اسی امت میں سے یا گزشتہ امتوں میں سے ایک بندے نے گناہ کیا اور پھر کہنے لگا اے میرے پروردگار میں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کیا میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو جس کو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کے گناہ بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کے گناہ پر مواخذہ کرتا ہے تو جان لو میں نے اپنے بندہےکو بخش دیا۔ وہ بندہ اس مدت تک کہ اللہ نے چاہا گناہ کرنے سے باز رہا، اس کے بعد اس نے پھر گناہ کیا اور عرض کیا کہ اے میرے پروردگار ! میں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کیا یہ میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو گناہ کو بخشتا ہے اور اس پر مواخذہ کرتا ہے ؟ میں نے اس بندہے کو بخش دیا۔ وہ بندہ اس مدت تک کہ اللہ نے چاہا گناہ سے باز رہا اور اس کے بعد پھر اس نے گناہ کیا اور اس کے بعد پھر اس نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کیا میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر مواخذہ کرتا ہے ؟ میں نے اس بندہ کو بخش دیا پس جب تک وہ استغفار کرتا رہے جو چاہے کرے۔ (بخاری ومسلم)."

(مشكاة مصابيح ،كتاب الدعوات باب الاستغفاروالتوبة،ج:1،ص:355،ط:بشرى كراتشي)

مذکورہ آیات واحادیث معلوم ہواکہ اللہ تعالی کواپنےبندوں سےکتنی محبت ہے،اللہ تعالی جتنی اپنےبندوں سےمحبت کرتاہےاُتنی  محبت ماں باپ کواپنی اولادسےنہیںکرتے،چنانچہ بخاری ومسلم میں روایت ہے:

"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قدم على النبي صلى الله عليه وسلم سبي، فإذا امراة من السبي قد تحلب ثديها تسقي، إذا وجدت صبيا في السبي اخذته فالصقته ببطنها وارضعته، فقال لنا النبي صلى الله عليه وسلم:" اترون هذه طارحة ولدها في النار" قلنا: لا، وهي تقدر على ان لا تطرحه فقال:" لله ارحم بعباده من هذه بولدها".

"ترجمہ:حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺکے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہو تھا اور وہ دوڑ رہی تھی ، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی ۔ ہم سے حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں، جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینک سکتی ۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے۔"

(صحيح مسلم،كتاب التوبة باب سعة رحمة الله تعالى وانهاتغلب غضبه،ج:3،ص:1666،ط:بشرى كراتشي )

نوٹ:بہترہےکہ آپ چار ماہ یاچالیس دن کےلیےتبلیغ میں وقت لگائے،یاکسی پابندِقرآن وسنت  برزگ سےتعلقات قائم کرےاوراس سےاپنےاحوال کےبارےمیں مشورہ لیتے رہے۔

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308102079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں