بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالی کی رحمت کی وسعت سے متعلق سننِ ترمذی کی ایک روایت


سوال

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: اے ابنِ آدم! بے شک تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور مجھ سے امید وابستہ رکھے گا تب تک تجھ سے جو بھی گناہ سرزد ہوں گے میں ان پر تجھے بخشتا رہوں گا اور مجھے کچھ بھی پرواہ نہیں۔ اے ابنِ آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں کو پہنچ جائیں اور پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اے ابنِ آدم! اگر تو زمین بھر گناہ کر کے مجھ سے اس حال میں ملے کہ تو  نےمیرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں اس کے برابر مغفرت عطا کروں گا۔  اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ منحدیث کی تصدیق درکار ہے۔

جواب

سوال میں آپ نے جس حدیث کے متعلق دریافت کیا ہے،یہ  حدیث امام ترمذی رحمہ اللہ نے "سنن ترمذی"میں روایت کی ہے،حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا عبدُ الله بنُ إسحاق الجوهريُّ البصريُّ قال: حدّثنا أبو عاصمٍ قال: حدّثنا كثيرُ بنُ فائدٍ قال: حدّثنا سعيدُ بنُ عبيدٍ، قال: سمعتُ بكر بنَ عبد الله المزنيَّ، يقول: حدّثنا أنس بنُ مالكٍ-رضي الله عنه-، قال: سمعتُ رسولَ الله -صلّى الله عليه وسلّم- يقول: قال اللهُ -تبارك وتعالى-: يا ابنَ آدم! إنّك ما دعوتَني ورجوتَني غفرتُ لك على ما كان فيك ولا أُبالي، يا ابنَ آدم! لو بلغتْ ذنوبُك عَنان السماء ثمّ استغفرتَني غفرتُ لك ولا أُبالي، يا ابنَ آدم! إنّك لو أتيتَني بِقُراب الأرض خطايا، ثم لقيتَني لا تُشرِك بي شيئاً لأتيتُك بِقُرابها مغفرةً. قال أبو عيسى: هذا حديثٌ حسنٌ غريبٌ لا نعرفُه إلاّ من هذا الوجه".

(سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب (بدون الترجمة)، 5/548، رقم الحديث:3540، ط: مصطفى البابي الحلبي-مصر)

ترجمہ:

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتے ہیں:اے ابنِ آدم! بلاشبہ  جب تک تو مجھ سے دعا کرتا رہے گا (یعنی گناہوں کی معافی مانگتا رہے گا)اور مجھ سے امید وابستہ رکھے تو تجھ سے جو بھی گناہ سرزد ہوں گے میں ان پر تجھے بخشتا رہوں گا اور مجھے کچھ بھی پرواہ نہیں(یعنی چاہے تو کتنا ہی بڑا گناہ گارہو،تجھے بخشنا میرےنزدیک کوئی بات نہیں ہے)۔ اے ابنِ آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوںں تک پہنچ جائیں اور پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھےاس کی پرواہ نہیں ہوگی۔ اے ابنِ آدم! اگر تو زمین بھر گناہ کر کے مجھ سے اس حال میں ملے کہ تو  نےمیرے ساتھ شرک نہ کیا ہو(یعنی توشرک میں مبتلا نہ ہواہو) تو میں زمین بھر بخشش ومغفرت لے کر تیرے پاس آوں گا‘‘۔

مذکورہ حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے امام ترمذی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:"هذا حديثٌ حسنٌ غريبٌ لا نعرفُه إلاّ من هذا الوجه".(یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سےجانتے ہیں )یعنی حدیث کے مذکورہ الفاظ صرف اسی سند میں مذکور ہیں،  البتہ اس کے ہم معنی الفاظ دیگر  احادیث میں اس کے لیے بطورِ شاہد کے موجود ہیں،جیساکہ  خطیب تبریزی  رحمہ اللہ "مشكاة المصابيح"میں  حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث  ذکرکرنے کے بعد  حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت سےمذکورہ حدیث کے دیگر شواہد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"رواه الترمذيُّ. ورواه أحمدُ والدارميُّ عن أبي ذرٍ. وقال الترمذي: هذا حديثٌ حسنٌ غريبٌ".(اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔امام احمد ودارمی رحمہما اللہ نے اسے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ حدیث حسن غریب ہے)۔

(مشكاة المصابيح، كتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبة، 2/223، رقم الحديث:2336، ط: المكتب الإسلامي-بيروت)

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے حسن غریب ہے ، البتہ اس کے ہم اس کےمعنی الفاظ دیگر احادیث میں اس کے لیے بطورِ شاہد موجود ہیں۔

 "شرح علل الترمذي لابن رجب"میں ہے:

"... وعلى هذا فلا يُشكل قوله: "حديثٌ حسنٌ غريبٌ"، ولا قوله: "صحيحٌ حسنٌ غريبٌ لا نعرفُه إلاّ مِن هذا الوجه"، لأنّ مُراده أنّ هذا اللفظ لا يُعرف إلاّ من هذا الوجه، لكن لِمعناه شواهدُ مِن غير هذا الوجه، وإنْ كانتْ شواهدُ بغير لفظِه. وهذا كما في حديث: "الأعمالُ بالبينات"، فإنّ شواهدَه كثيرةٌ جداً في السنّة، مما يدلُّ على أنّ المقاصد والنيّات هي المؤثّرةُ في الأعمال، وأنّ الجزاء يقعُ على العمل بِحسب ما نُوي به، وإنْ لم يكن لفظُ حديثِ عُمر مرويّاً ِمن غير حديثه مِن وجه يصحُّ".

(شرح علل الترمذي، الباب الأول، القسم الثالث، معنى الحسن عند الترمذي، 2/607، ط: مكتبة المنار، الزرقاء- الأردن)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں