جنت میں مجھے مردوں کے لیے خاص نعمتوں کا ذکر تو ملتا ہے، لیکن ہم عورتوں کے لیے کوئی خاص ذکر نہیں ملا، مجھے جنت میں حوروں کی سردار بننے کی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی کسی مرد میں کوئی دلچسپی ہے، لیکن میں بھی جنت میں جانے کی کوشش کرتی ہوں اور اپنے بھائی اور والد سے نیکیوں میں اور اجر میں آگے نکلنا چاہتی ہوں، لیکن جب سے میں نے یہ بات سنی ہے تب سے میرا دل نہیں کرتا کہ میں جنت میں جانے کی کوشش کیوں کروں ؟کیوں کہ میں چاہے کتنی بھی کوشش کرلو ں، میں کبھی بھی اپنے بھائی اور والد سے اجر میں آگے نہیں نکل پاؤں گی، ایسا کیوں ہے ؟ میں نے تو سناہےکہ اجرکے معاملہ میں خدا عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں کرےگا، پھر ایسا کیوں ہے کہ میں جتنی بھی کوشش کرلوں ان کے پاس ہی خاص اجر ہے اور بڑا اجر بھی ہے؟ ہمارا تو کوئی ذکر ہی نہیں ہے کہ ہم بھی کوئی خاص اجر ملے گا، بلکہ میں نے جتنے بھی لوگوں سے سنا ہے وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ صرف مردوں کے لیے جنت میں نعمتیں ہیں۔
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا جنات اور انسان کو پیدا کرنے کا اصل مقصد صرف اپنی عبادت اور بندگی ہے،اس لیے انسان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجاآوری اور ممنوعات سے اجتناب کرے،، اس ذمہ داری کی انجام دہی پر نتائج کا مرتب ہونا یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک انعامات پانا نہ پانا اس سے انسان کا کوئی سروکار نہیں ہے، بلکہ اس ذمہ داری کی بجاآوری پر اللہ تعالی ٰ کی طرف سے جتنی بھی نعمتوں سے نوازنے کا وعد ہ ہے وہ محض اللہ تعالی ٰ کا فضل و کرم ہے، اس لیے انسان دنیا میں رہتے ہوئے اپنی اصل ذمہ داری یعنی اللہ تعالی کی عبادت محض اس کی رضامندی کے لیے کرے، بندہ کی شان یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے یہ حکم کیوں دیتا ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کے بدلے مجھے کیا ملے گا؟ جیسے سوالات اٹھائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ "(الذاریات:56 آیة)
ترجمہ: ”اور میں نے جن اور انسان کو (دراصل) اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں۔“
نیز آپ سے لوگوں کا کہنا (کہ صرف مردوں کے لیے جنت میں نعمتیں ہیں )یہ بھی صحیح نہیں ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے بندوں کے لیے ان کی نیکیوں کے بدلے انہیں عظیم اجر و ثواب اورجنت کی بے شمار کی نعمتوں سےنوازنے کا وعدہ فرمایا ہے اور اس معاملہ میں مرد و عورت کی کوئی تفریق نہیں فرمائی، تمام مردوں اور عورتوں میں سے جس کے جتنے نیک اعمال ہوں گے ان کے مطابق جنت میں انہیں بے شمار نعمتوں سے نوازا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلند مرتبہ پانے کا معیار مرد ہونا یا عورت ہونا نہیں، بلکہ تقوی یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور گناہوں سے اجتناب کرنا ہی بلند مرتبہ پانے کا معیار ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بہت سے مواقع میں عورتوں کا خاص تذکرہ فرما کر ان کو نیکیوں میں مشغول ہونے کی ترغیت اور گناہوں سے اجتناب کرنے کی تنبیہ فرمائی ہے اور قرآن کریم میں ”سورۃ النساء“ (خواتین سے متعلق سورہ) کے نام سے ایک سورہ بھی الگ نازل فرمائی تھی، اسی طرح قرآن کریم میں کچھ ایسی خواتین کا بھی تذکرہ فرمایا کہ ان کو اپنے تقوی اور پرہیزگاری کی وجہ سے بہت سے مردوں پر فوقیت حاصل ہوئی تھی، مثلاً حضرت مریم اور حضرت آسیہ علیہما السلام وغیرہ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ تمام جنّتیوں کی خواہشات اور احساسات کو خالص انسانی فطرت کے موافق بنائیں گے، اس سے سبھی جنّتی جنت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوازی گئی نعمتوں پر (جن کو دنیا کی نہ کسی آنکھ نے دیکھی اور نہ ہی کسی کان نے سنا ہو)بے حد راضی اور خوش ہوں گے۔
اس لیے صورتِ مسئولہ میں آپ کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت خالص اس کی رضامندی کے لیے کریں ، جنت میں صرف مردوں کے لیے مزہ ہے ، عورتوں کے لیے نہیں اس جیسے سوالات میں نہ پڑیں، اور آپ کا یہ سوچ کر مایوس ہونا بھی صحیح نہیں ہے کہ ہم جتنی بھی نیکیاں کریں مردوں سے اجر و ثواب اور جنت کی نعمتوں کے حصول میں آگے نہیں بڑھ سکیں گی، بلکہ ہر مسلمان خاتون کو چاہیے کہ نیک اعمال میں ہمیشہ مردوں سے بھی سبقت حاصل کرنے کی کوشش کریں، اس پر اللہ تعالیٰ ضرور اپنے فضل و کرم سے بے شمار نعمتیں عطا فرمائےگا ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
قرآن کریم میں ہے:
"اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیْنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ١ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(سورة الأحزاب: الآیة 35)"
ترجمہ : ”تحقیق مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان دار مرد اور ایمان دار عورتیں اور بندگی کرنے والے مرد اور بندگی کرنے والی عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور محنت جھیلنے والے مرد اور محنت جھیلنے والی عورتیں اور دبے رہنے والے مرد اور دبی رہنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں اور حفاظت کرنے والے مرد اپنی شہوت کی جگہ کو اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور یاد کرنے والے مرد اللہ کو بہت سا اور یاد کرنے والی عورتیں رکھی ہے اللہ نے ان کے واسطے معافی اور ثواب بڑا۔“
حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ”تفسیر معارف القرآن“ لکھتے ہیں:
”قرآن کریم کا یہ اسلوب اگرچہ خود ایک بڑی حکمت و مصلحت پر مبنی تھا، مگر عورتوں کو اس کا خیال گزرنا ایک امر طبعی تھا۔ اسی لئے کتب حدیث میں ایسی متعدد روایات ہیں جن میں عورتوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ مردوں کا ہی ذکر قرآن میں فرماتے ہیں، انہی کو مخاطب فرماتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ہم عورتوں میں کوئی خیر ہی نہیں، ہمیں ڈر ہے کہ ہماری عبادت بھی قبول نہ ہو (رواہ البغوی عن الازواج المطہرات) اور ترمذی میں بسند حسن حضرت ام عمارہ انصاریہ سے اور بعض روایات میں حضرت اسماء بنت عمیس سے اس طرح کی عرضداشت پیش کرنا منقول ہے، اور ان سب روایات میں آیات مذکور الصدر کا سبب نزول اسی عرض داشت کو قرار دیا ہے۔
آیات مذکورہ میں عورتوں کی دل جوئی اور ان کے اعمال کی مقبولیت کا خصوصی ذکر فرمایا گیا ہے، جس میں یہ جتلا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبولیت اور فضیلت کا مدار اعمال صالحہ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ہے اس میں مرد و عورت میں کوئی امتیاز نہیں۔“
(تفسیر سورة الأحزاب: آیت 35، ط: مکتبہ معارف القرآن)
قرآن کریم کی دوسری جگہ میں ہے:
"وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ١ۘ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَۙ ٭ وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۠"(سورة التحریم: الأیة: 11-12)"
ترجمہ : ”اور اللہ نے بتلائی ایک مثل ایمان والوں کے لئے عورت فرعون کی جب بولی اے رب بنا میرے واسطے اپنے پاس ایک گھر بہشت میں اور بچا نکال مجھ کو فرعون سے اور اس کے کام سے اور بچا نکال مجھ کو ظالم لوگوں سے، اور مریم بیٹی عمران کی جس نے روکے رکھا اپنی شہوت کی جگہ کو پھر ہم نے پھونک دی اس میں ایک اپنی طرف سے جان اور سچا جانا اپنے رب کی باتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور وہ تھی بندگی کرنے والوں میں۔“
صحیح مسلمؒ کی ایک حدیث شریف میں ہے:
"عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قال الله عز وجل: اعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رات ولا اذن سمعت ولا خطر على قلب بشر مصداق ذلك في كتاب الله فلا تعلم نفس ما اخفي لهم من قرة اعين جزاء بما كانوا يعملون (سورة السجدة ) ".
(كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها: ج: 4، ص:2174، دار إحیاء التراث العربي)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا (یعنی دنیا میں جو آدمی ہیں ان کی آنکھوں نے)، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی آدمی کے دل میں ان کا تصور آیا۔ اور یہ مضمون اللہ کی کتاب میں موجود ہے کوئی نہیں جانتا جو چھپایا گیا ہے ان کے لیے آنکھوں کا آرام۔ یہ بدلہ ہے ان کے کاموں کا۔“
تفسیر ابن کثیرؒ میں ہے:
" قال النسائي أيضا : حدثنا محمد بن حاتم ، حدثنا سويد ، أخبرنا عبد الله بن شريك ، عن محمد بن عمرو ، عن أبي سلمة ، عن أم سلمة أنها قالت للنبي صلى الله عليه وسلم : يا نبي الله ، ما لي أسمع الرجال يذكرون في القرآن ، والنساء لا يذكرن ؟ فأنزل الله ( إن المسلمين والمسلمات والمؤمنين والمؤمنات )"
(تفسیر سورة الأحزاب: آیت:35، ط: دار طیبة)
تفسیر روح المعانی للألوسیؒ میں ہے:
"وفيها ما تشتهي الأنفس وتلذ الأعين ثم وصف بأنه دار إقامة بلا إرتحال وثبات بلا زوال ولا يعد هذا تكرارا لقوله سبحانه : خالدين فيها كما لا يخفى ثم وعدهم جل شأنه كما يفهم من الكلام هو ما أجل وأعلى من ذلك كله بقوله تبارك وتعالى : ورضوان من الله أي وقدر يسير من رضوانه سبحانه أكبر ولقصد إفادة ذلك عدل عن رضوان الله الأخصر إلى ما في النظم الجليل وقيل : إفادة العدول كون ما ذكر أظهر في توجه الرضوان إليهم ولعله إنما لم يعبر بالرضا تعظيما لشأن الله تعالى في نفسه لأن في الرضوان من المبالغة ما لا يخفى ولذلك لم يستعمل في القرآن إلا في رضاء الله سبحانه وإنما كان ذلك أكبر لأنه مبدأ لحلول دار الإقامة ووصول كل سعادة وكرامة وهو غاية أرب المحبين ومنتهى أمنية الراغبين .
وقد أخرج الشيخان وغيرهما عن أبي سعيد الخدري قال : قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم إن الله تعالى يقول لأهل الجنة : يا أهل الجنة فيقولون : لبيك ربنا وسعديك والخير في يديك فيقول : هل رضيتم فيقولون : ربنا وما لنا لا نرضى وقد أعطيتنا ما لم تعط أحدا من خلقك فيقول : ألا أعطيكم أفضل من ذلك فيقولون : وأي شيء أفضل من ذلك يا ربنا فيقول أحل عليكم رضواني فلا أسخط عليكم بعده أبدا ولعل عدم نظم هذا الرضوان في سلك الوعد على طرز ما تقدم مع عزته في نفسه لأنه متحقق في ضمن كل موجود ولأنه مستمر في الدارين ذلك أي جميع ما ذكر هو الفوز العظيم "
(تفسیر سورة التوبة: الأیة 58، ص: 137، ج:10، ط: دار إحیاء التراث العربي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144406100880
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن