بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آیت ِ مبارکہ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ کے متعلق ایک سوال کا جواب


سوال

 جمعہ میں ایک عالمِ دین نے"اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ"کا ترجمہ یوں کیا کہ "بے شک اللہ ہر ممکن چیز پر قادر ہے" اس پر ایک دوسرے عالمِ دین نے اعتراض کیا کہ یہاں ممکن کا لفظ آپ نے کہاں سے لیا؟ خطیب صاحب نے کہا کہ ہمارے نزدیک شیء ممکن کو ہی کہتے ہیں، ممتنع اور واجب الوجود کو شیء نہیں کہتے، اس پر ایک سوال اٹھا کہ کیا اللہ کے لئے بھی ناممکنات ہیں؟

جواب

لغۃً لفظ ِ " شیئ" کا اطلاق ممکن ، واجب اور محال تینوں پر ہوتا ہے، لیکن"شیئ" کے متعلقات بدل جانے سے اس کا مفہوم بدل جاتا ہے،لفظ ِ "شیئ"جب قدرت کا متعلق بنے تو اس سے ممکنات ہی مراد ہوتی ہیں، جیسا کہ روح المعانی میں ہے:

"والشيء لغة ما يصح أن يعلم ويخبر عنه كما نص عليه سيبويه، وهو شامل للمعدوم والموجود الواجب والممكن وتختلف إطلاقاته، ويعلم المراد منه بالقرائن فيطلق تارة، ويراد به جميع أفراده كقوله تعالى: والله بكل شيء عليم [البقرة: 282، النساء: 176، النور: 18، 64، التغابن: 11] بقرينة إحاطة العلم الإلهي بالواجب والممكن المعدوم والموجود والمحال الملحوظ بعنوان ما، ويطلق ويراد به الممكن مطلقا كما في الآية الكريمة بقرينة القدرة التي لا تتعلق إلا بالممكن، وقد يطلق ويراد به الممكن الخارجي الموجود في الذهن كما في قوله تعالى: ولا تقولن لشيء إني فاعل ذلك غدا إلا أن يشاء الله [الكهف: 23، 24] بقرينة كونه متصورا مشيئا فعله غدا، وقد يطلق ويراد به الممكن المعدوم الثابت في نفس الأمر كما في قوله تعالى: إنما قولنا لشيء إذا أردناه أن نقول له كن فيكون [النحل: 40] بقرينة إرادة التكوين التي تختص بالمعدوم، وقد يطلق ويراد به الموجود الخارجي كما في قوله تعالى: وقد خلقتك من قبل ولم تك شيئا [مريم: 9] أي موجودا خارجيا لامتناع أن يراد نفي كونه شيئا بالمعنى اللغوي الأعم الشامل للمعدوم الثابت في نفس الأمر لأن كل مخلوق فهو في الأزل شيء- أي معدوم- ثابت في نفس الأمر".

(سورة البقرة، الآية: 20 ج:1،ص: 180، ط: العلمية)

اس  سے معلوم ہوا کہ  قدرت کا تعلق ممکنات کے ساتھ ہے،واجبات یا محالات کے ساتھ نہیں ، نیزمحالات   کے ساتھ قدرت الہی کے متعلق نہ ہونے سےعجز  لازم نہیں آتا، کیونکہ یہاں پر قصور  شیئ ( محال یا واجب ) میں ہے کہ اس میں مقدور بننے کی صلاحیت ہی نہیں، مقدور بننے کی صلاحیت صرف ممکنات میں ہے،محالات یا واجبات میں نہیں۔

رہی یہ بات کہ  "اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ" کا ترجمہ  اس طرح کرنا کہ  "بے شک اللہ ہر ممکن چیز پر قادر ہے"  اکابرین  کے تراجم میں  اس طرح نہیں ہے، لہذا  ترجمہ کرتے وقت  لفظِ "ممکن " کا اضافہ نہ کیا جائے کہ اس سے  عوام  میں خوامخواہ تشویش ہوگی، اور اشکالات ابھریں گے،اور  اُن کے لیے اس بحث کو سمجھنا مشکل ہو جائے گا؛ کیوں کہ یہ علم الکلام کی بحث ہے،جو اہل علم  تک محدود رہنی چاہیے،عوام کا   اس میں  پڑنا  مضر ہے۔

بیان القرآن میں ہے:

 "اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ"

ترجمہ:"بلا شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں۔"(بیان القرآن)

(سورۃ البقرۃ،آیت نمبر:20)

 معارف القرآن للکاندھلوی میں اس کا  میں  ترجمہ یوں ہے:

 "اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ"(سورۃ البقرۃ،آیت نمبر:20)

ترجمہ:"بے شک اللہ  ہر چیز پر قادر ہے۔"

"النبراس حاشیۃ  العقائد النسفیہ " میں ہے:

"فلا يرد النقض بمراتب العدد بأن تطبق جملتان، إحداهما: من الواحد لا إلى نهاية، والثانية:من الاثنين لا إلى نهاية. ولا بمعلومات الله تعالى ومقدوراته؛ فإن الأولى أكثر من الثانية مع لا تناهيهما، وذلك لأن معنى لا تناهى الأعداد والمعلومات والمقدورات: أنها لا تنتهي إلى حد لا يتصور فوقه آخر،لا بمعني:أن مالا نهاية له يدخل في الوجود؛فانه محال.

(قوله)ولا يرد النقض بمعلومات الله تعالى ومقدوراته؛ فإن الأولى أي المعلومات أكثر من الثانية أي المقدورات؛ لأن ذات الحق سبحانه معلومة له غير مقدورة له، والمحالات معلومة غير مقدورة، والعامة إذا سمعوا ذلك أنكروا إنكارا عظيما، زاعمين أنه مستلزم العجز، حتى سمعت بعض الموسومين بالعلم يقول: هو قادر على خلق شريكه، وهكذا كمن بنى قصرا، وهدم مصرا، إذا بطل التوحيد الذي هو أعظم أصول الإسلام بمراعاة القدرة على حسب وهمه الفاسد، وأنت تعلم أن تعلق إرادة الله سبحانه بالمحال محال، والعجز إنما يلزم فيمن أراد ولم يستطع، فاحفظه."

(بحث:المحدث للعالم هو الله تعالى،ص:160،ط:مكتبه البشرٰی)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"ممکنات پر قادر ہونا صفت ِ کمال ہے اور عاجز ہونا نقص ہے، جس سے اللہ تعالی پاک ہے، محالات سے پاک ہونا صفتِ کمال ہے اور محالات سے متصف ہونا نقص ہے، جس سے اللہ تعالی پاک ہے، فقط واللہ اعلم ۔"

(مایتعلق باللہ وصفاتہ، ج:1 ص: 264، ط:الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100446

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں