بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں وساوس آنا فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پرفورا غیبی مدد نہ آنا


سوال

 مجھے الحَمدُ للہ اکتوبر میں اللہ تعالیٰ نے عمرے  کی سعادت نصیب فرمائی ۔اب مجھے اسلام اور قرآن ک بارے میں بڑا شوق پیدا ہوا۔ مجھے بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں بڑے وساوس اور منفی خیالات آتے ہیں جس کی وجہ سے میں بہت تشویش میں مبتلا ہوں مثلاً فلسطین کے بارے میں مجھے ایک خیال جو موجودہ حالات کے اعتبار سے ہے وہ یہ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد فلسطین کے عوام پر کیوں نہیں آرہی اور چھوٹے بچے کیوں مر رہے ہیں اور تکلیف میں مبتلا ہیں اور اس طرح دوسری چیزوں کے بارے میں بھی ۔ استغفار بھی کرتا رہتا ہوں مجھےاس بارے میں بڑی تشویش ہے۔میں اب کیا کروں ؟

جواب

دل میں غیر اختیاری طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے وجود یا دیگر دینی عقائد کے بارے میں منفی خیالات اور وساوس کے آنے سے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ اس قسم کے وسوسہ آنا  اور انہیں برا سمجھنا دل میں ایمان کے موجود ہونے کی علامت ہے؛ کیوں کہ شیطان جب کسی شخص کو راہِ حق سے ہٹانے سے مایوس ہو جاتا ہے تو اس کے دل میں ایمان کے بارے میں وسوسہ پیدا کر کے اسے پریشان کرتا ہے، نیز اس نوعیت کے وساوس کو برا سمجھنا اور دل کو ان سے تشویش لاحق ہونے کو حدیث شریف میں صریحِ ایمان فرمایا گیا ہے، لہذا آپ پریشان نہ ہوں، بلکہ شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں اور ان وساوس میں غور وفکر کرنے اور ان کا جواب سوچنے کے بجائے ان سے اعراض کریں اور ذہن کو کسی دوسری طرف متوجہ کریں۔

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اے عزیز!صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بڑھ کر کسی عالم کا کسی عارف کا رتبہ نہیں ہوا۔ان تک یہ قصہ پیش آیا کہ انواع انواع کے وساوس نے گھیرا اور وساوس بھی ایسے جس کو وہ زبان پر لانا جل کر کوئلہ ہو جانے سے بدتر اور سخت تراور گراں ترونا گوار تر جانتے تھے۔ آخر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں اس کاذکر کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ذاك صریح الایمان"  یعنی یہ تو کھلی نشانی ایمان کی ہے۔ دو وجہ سے، اول اس لئے کہ چوروہاں جاتا ہے جہاں متاع پاتا ہے۔ پس اگر متاعِ ایمان اس شخص کے قلب میں نہ ہوتا تو ہر گز شیطان اس کے پیچھے نہ پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نیک لوگوں کو وساوس پیش آتے ہیں ۔ اور جو فساق و فجار واشرار ہیں ۔ ان کو کبھی اس کا اتفاق بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ شیطان ان سے جب گناہ کرارہا ہے تو اس کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ایسے امر میں مبتلا کرے جس میں کسی قسم کا گناہ بھی نہیں۔ نرارنج ہی رنج ہے۔ دوسرے اس لئے علامت ایمان کی ہے کہ مومن نے جب اس کو بُرا سمجھا پس اگر اس شخص کے ایمان میں خلل ہوتا تو ان خیالات کفر یہ کو حق سمجھتا۔ اور ان کو دل سے قبول کرتا اور ان پر مطمئن ہوتا۔ اور ان میں اس کے قلب کو انشراح ہوتا کراہت نہ ہوتی جیسا تمام کفار کو دیکھا جاتا ہے۔ جب اس شخص نے ان کو مکروہ سمجھا تو ان کے اضداد کو حق سمجھتا ہے اور یہی ایمان ہے۔۔۔ رہا اس کا علاج بس سب معالجات سے بہتر علاج جس کو اکسیر اعظم کہنا چاہئے یہی ہے کہ اس کا کچھ علاج نہ کیا جاوے۔ بلکہ جرأت و دلیری کے ساتھ اور یقین و عزم کے ساتھ یہ سمجھے اور دل میں یہ خیال کرے کہ جب یہ عند اللہ گناہ نہیں اور شرعاً کوئی مرض نہیں ۔ پھر کیا غم بلکہ جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہ دلیل ایمان ہے تو اس پر اُلٹا اور خوش ہونا چاہیے۔ جب یہ شخص خوش ہوگا تو شیطان نے وہ وسوسہ توخاص اسی لئے القاء کیا تھا کہ یہ شخص محزون ہوگا۔ جب وہ دیکھے گا کہ یہ شخص تو خوش ہوتا ہے اور اس کا خوش ہونا اس کو پسند نہیں ۔ پس وہ وسوسہ ڈالنا چھوڑ دے گا۔ اور بہت آسانی سے اس شخص کو اس سے نجات ہوجا وے گی۔ اور اگر نجات نہ بھی ہو تو بھی پرواہ نہیں ۔ کیوں کہ جب یہ معصیت نہیں تو اس سے نجات کی ضرورت کیا ہے۔ اور جیسابے پرواہی ودلیری اور بے توجہی سے یہ قطع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر اس سے ڈرا کرے اور اس کے غم میں پڑے جاوے اور یہی فکر و ذکر رکھے۔ اور سوچا کرے تو یہ روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ گو اس کے بڑھنے سے گناہ تو نہیں ہوتا مگر خواہ مخواہ ایک واہیات پریشانی ہوتی ہے۔پس عمدہ علاج یہ ہے اور ہر وسوسہ کا بالتفصیل جواب سوچنا یا کسی سے پوچھنا یہ طریقہ مضر ہے۔ اس میں اگر فوری تسلّی ہو جاتی ہے۔ دو چار روز کے بعد پھر اس جواب میں کوئی خدشہ ہوجاتاہے پھر وسوسہ ستانے لگتا ہے۔ اور نفس میں اچھا خاصا ایک مناظرہ کا میدان گرم ہو جاتا ہے اس لئے اس طریق کو ہر گز اختیار نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ بجائے اس سوچ بچار کے ذکر اللہ کا شغل رکھے کہ وہ قاطع وسوسہ بھی ہے۔ جیسا حدیث میں آیا ہے۔ اور اس سے قلب میں بھی قوت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ ایسے خرافات سے متاثر نہیں ہوتا"۔ 

(کتاب السلوک، 5/177، ط: دار الاشاعت)

جہاں تک فلسطین کے موجودہ حالات پر اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد نہ آنے کا سوال ہے تو یہ بات واضح رہے کہ یہ دنیا دار الامتحان یعنی آزمائش کی جگہ ہے دار الجزاء نہیں ہے، ضروری نہیں ہے کہ یہاں ہر ظالم کو اس کے ظلم کا فوری بدلہ مل جائے اور مظلوم پر فوری اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد کے دروازے کھل جائیں، بلکہ امتحان تو اسی صورت میں ہو گا جب ظالم کی فوری پکڑ نہ ہو اور اسے ڈھیل دی جائے،نیز اہلِ باطل کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوری مدد و نصرت کا نازل نہ ہونا ان حالات میں سے ہے جو ہم سے پیشتر امتوں میں بھی پیش آچکے ہیں، چنانچہ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے:

"أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْساءُ وَالضَّرَّاءُ ‌وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتى نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (214)".

ترجمہ:  کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ جنت میں (بےمشقت) جاداخل ہوگے حالانکہ تم کو ہنوزان (مسلمان) لوگوں کا سا کوئی (عجیب) واقعہ پیش نہیں آیا جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں۔ ان پر (مخالفین کے سبب) ایسی ایسی تنگی اور سختی واقع ہوئی اور (مصائب رہے) ان کو یہاں تک جنبشیں ہوئیں کہ (اس زمانے کے) پیغمبر تک اور جو ان کے ہمراہ اہل ایمان تھے بول اٹھے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد (موعود) کب ہوگی۔ یاد رکھو بیشک اللہ تعالیٰ کی امداد (بہت) نزدیک ہے۔ (بيان القرآن)

اسی آیت کی تمہید میں مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

"اس لیے آئندہ آیت میں مسلمانوں کی تسلی فرماتے ہیں کہ تم اہل باطل اور اہل دنیا کی ایذاؤں سے ہرگز نہ گھبرانا یہ کوئی نئی بات نہیں ہمیشہ سے اہل باطل حضرات انبیاء اور اہل ایمان کو ایذا پہنچاتے چلے آئے ہیں یہ دنیا دار ابتلاء اور دار امتحان ہے یہاں کے چند روزہ مصائب پر نظر نہ کرو صبر پر جو دار آخرت میں راحتیں اور نعمتیں ملیں گی ان پر نظر رکھو۔"

(معارف القرآن، 1/407، ط:مکتبۃ المعارف)

ان حالات میں صرف یہی بہت بڑی آزمائش ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو ظاہر کر دیں دنیا کے تقریبا دو ارب مسلمانوں میں سے کون جانی یا مالی امداد  کر کےیا دشمن کے خلاف بائیکاٹ کی مہم میں شامل ہو کر یا قابض یہود کے بار ے میں عوام میں  شعور پیدا کر کے یا کسی بھی طریقے سے اہلِ حق فلسطینیوں کا ساتھ دیتا ہے اور کون ہے جو اہلِ کفر کی ظاہری طاقت و قوت اور شان و شوکت سے مرعوب ہو کر یا اپنی دنیاوی مفادات کی لالچ کا شکار ہو کر ظالمین کی صف میں شامل ہو جاتا ہے۔

سورۃ العنکبوت کی ابتدا میں ارشاد ہے:

"الم (1) أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُونَ (2) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكاذِبِينَ (3)".

ترجمہ:الم۔ (بعضے مسلمان جو کفار کی ایذاؤں سے گھبرا جاتے ہیں تو) کیا ان لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اتنا کہنے پر چھوٹ جاویں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کو آزمایا نہ جاوے گا۔  اور ہم تو (ایسے واقعات سے) ان لوگوں کو بھی آزما چکے ہیں جو ان سے پہلے (مسلمان) ہو گزرے ہیں سو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو (ظاہری علم سے) جان کر رہے گا جو (ایمان کے دعوے میں) سچے تھے اور جھوٹوں کو بھی جان کر رہے گا۔ (بیان القرآن)

اس کے علاوہ بھی فلسطین میں ظالم کو ڈھیل دیے جانے اور مظلوم مسلمانوں کی قیمتی جانیں قربان ہونے میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہو سکتی ہیں جن تک ہماری عقل و فہم کی رسائی ضروری نہیں۔

نیز یہ بات اپنے اطلاق کے ساتھ درست نہیں ہے کہ اہلِ فلسطین پر اللہ تعالیٰ کی مدد نہیں آرہی، بلکہ غزہ میں کفریہ طاقتوں کے خلاف میدانِ جہاد میں مصروف مجاہدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد کا مشاہدہ آج پوری دنیا اپنی آنکھوں سے کر رہی ہے کہ ایک طرف اسرائیل کی جدید ہتھیاروں سے لیس فوج ہے جسے عالم کفر کی مکمل اعلانیہ پشت پناہی حاصل ہے دوسری طرف ظاہری طور پر اس سے کئی گنا کمزور غزہ کے مجاہدین ہیں -اللہ تعالیٰ ان کی مدد و نصرت فرمائے- کہ مسلم ممالک عرب ہوں یا عجم ان کی مدد سے کتراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لیکن تقریبا نصف سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود دشمن کو اپنے ناپاک مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی مستقبل قریب میں کامیابی کے اثرات دکھائی دیتے ہیں، یقینا یہ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کی واضح علامت ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"209 - (132) حدثني ‌زهير بن حرب ، حدثنا ‌جرير ، عن ‌سهيل ، عن ‌أبيه ، عن ‌أبي هريرة قال: جاء ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به، قال: وقد وجدتموه؟ قالوا: نعم، قال: ذاك صريح الإيمان ".

(كتاب الإيمان، باب بيان الوسوسة في الإيمان وما يقوله من وجدها، 1/ 119، ط: دار إحياء التراث العربي، ت: عبد الباقي)

صحیح البخاری میں ہے:

"3276 - حدثنا ‌يحيى بن بكير: حدثنا ‌الليث، عن ‌عقيل، عن ‌ابن شهاب قال: أخبرني ‌عروة: قال ‌أبو هريرة رضي الله عنه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يأتي الشيطان أحدكم فيقول: ‌من ‌خلق ‌كذا ‌من ‌خلق ‌كذا حتى يقول: من خلق ربك؟ فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته".

(‌‌‌‌كتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس وجنوده، 4/ 123 ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں:

"أما معاني الأحاديث وفقهها فقوله صلى الله عليه وسلم ذلك صريح الإيمان ومحض الإيمان معناه استعظامكم الكلام به هو صريح الإيمان فإن استعظام هذا وشدة الخوف منه ومن النطق به فضلا عن اعتقاده إنما يكون لمن استكمل الإيمان استكمالا محققا وانتفت عنه الريبة والشكوك ... وقيل معناه أن الشيطان إنما يوسوس لمن أيس من إغوائه فينكد عليه بالوسوسة لعجزه عن إغوائه وأما الكافر فإنه يأتيه من حيث شاء ولا يقتصر في حقه على الوسوسة بل يتلاعب به كيف أراد فعلى هذا معنى الحديث سبب الوسوسة محض الإيمان أو الوسوسة علامة محض الإيمان وهذا القول اختيار القاضي عياض وأما قوله صلى الله عليه وسلم فمن وجد ذلك فليقل آمنت بالله وفي الرواية الأخرى فليستعذ بالله ولينته فمعناه الإعراض عن هذا الخاطر الباطل والالتجاء إلى الله تعالى في إذهابه قال الإمام المازري رحمه الله ظاهر الحديث أنه صلى الله عليه وسلم أمرهم أن يدفعوا الخواطر بالإعراض عنها والرد لها من غير استدلال ولا نظر في إبطالها قال والذي يقال في هذا المعنى أن الخواطر على قسمين فأما التي ليست بمستقرة ولا اجتلبتها شبهة طرأت فهي التي تدفع بالإعراض عنها وعلى هذا يحمل الحديث وعلى مثلها ينطلق اسم الوسوسة فكأنه لما كان أمرا طارئا بغير أصل دفع بغير نظر فى دليل اذلا أصل له ينظر فيه وأما الخواطر المستقرة التي أوجبتها الشبهة فإنها لا تدفع إلا بالاستدلال والنظر في إبطالها والله أعلم وأما قوله صلى الله عليه وسلم فليستعذ بالله ولينته فمعناه إذا عرض له هذا الوسواس فليلجأ إلى الله تعالى في دفع شره عنه وليعرض عن الفكر في ذلك وليعلم أن هذا الخاطر من وسوسة الشيطان وهو إنما يسعى بالفساد والإغواء فليعرض عن الإصغاء إلى وسوسته وليبادر إلى قطعها بالاشتغال بغيرها والله أعلم".

(كتاب الإيمان، باب بيان الوسوسة في الإيمان وما يقوله من وجدها، 2/ 154، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتح الباری میں ہے:

"وقوله في الحديث الآخر فليستعذ بالله ولينته أي يترك التفكر في ذلك الخاطر ويستعيذ بالله إذا لم يزل عنه التفكر والحكمة في ذلك أن العلم باستغناء الله تعالى عن كل ما يوسوسه الشيطان أمر ضروري لا يحتاج للاحتجاج والمناظرة فإن وقع شيء من ذلك فهو من وسوسة الشيطان وهي غير متناهية فمهما عورض بحجة يجد مسلكا آخر من المغالطة والاسترسال فيضيع الوقت إن سلم من فتنته فلا تدبير في دفعه أقوى من الإلجاء إلى الله تعالى بالاستعاذة به كما قال تعالى وإما ينزغنك من الشيطان نزغ فاستعذ بالله الآية".

(باب ما يكره من كثرة السؤال وتكلف ما لا يعنيه، 13/ 273، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں