بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالی کے وہ نام جن کے ساتھ عبد لگانا ضروری ہے


سوال

اللہ کے کن کن ناموں کے ساتھ "عبد" لگانا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی کتاب میں یہ تفصیل نہیں ملی کہ کون کون سے اسماۓ حسنی ٰ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں اور لفظِ ’’عبد‘‘ لگائے بغیرغیر اللہ کے لیے ان اسماء کا استعمال جائز نہیں ہے، اور کون سے اسماء کا اطلاق بغیر لفظ ’’عبد‘‘ لگائے غیراللہ کے لیے جائز ہے،  البتہ فقہاء اور مفسرین کی عبارات سے  مندرجہ ذیل دو اصول مستنبط ہوتے ہیں:

(1)۔پہلا اصول یہ ہے کہ وہ اسماۓحسنی ٰ جو باری تعالی کے اسمِ ذات ہوں یا صرف باری تعالیٰ کے صفاتِ مخصوصہ کے معنی ٰ ہی میں استعمال ہوتے ہوں، تو لفظِ ’’عبد‘‘ لگائے بغیران کا استعمال غیراللہ کے لیے کسی حال میں جائز نہیں، مثلاّ:الله، الرحمٰن، القدوس، الجبار، المتکبر، الخالق، الباری، المصور، الرزاق، الغفار، القہار، التواب، الوہاب، الخلاق، الفتاح،  القیوم، الرب، المحیط، الملیک، الغفور، الاحد، الصمد، الحق، القادر، المحیی۔

(2)۔وہ اسماے حسنیٰ جو باری تعالیٰ کے صفاتِ خاصہ کے علاوہ دوسرے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہوں اور دوسرے معنی کے لحاظ سے ان کا اطلاق غیراللہ پر کیا جاسکتاہو، ان میں تفصیل یہ ہے کہ اگر قرآن وحدیث، تعاملِ امت یا عرفِ عام میں ان  اسماء سے غیراللہ کا نام رکھنا ثابت ہو تو بغیر لفظِ ’’عبد‘‘ لگائے ایسا نام رکھنے میں مضائقہ نہیں ہے، مثلاً:علی، کریم، رحیم، عظیم، رشید، کبیر، بدیع، کفیل، ہادی، واسع، حکیم، وغیرہ۔

(3)۔مذکورہ دو اصولوں سے یہ اصول خود بخود نکل آیا کہ جن اسمائے حسنی ٰ کے بارے میں یہ تحقیق نہ ہو کہ قرآن وحدیث، تعاملِ امت یا عرف میں وہ غیر اللہ کے لیے استعمال ہوئے ہیں یا نہیں؟ تو بغیر لفظِ ’’عبد‘‘ لگائے ایسے نام رکھنے سے پرہیز لازم ہے، کیوں کہ اسمائے حسنی میں اصل یہ ہے کہ ان سے غیراللہ کا نام رکھنا جائز نہ ہو، جواز کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ یہ جواب مذکورہ بالا اصولوں  کے رو سے لکھا گیا ہے، کیونکہ ہرہر نام کے بارے میں کوئی تصریح نہیں ملی، اور اللہ تعالی کے اسماء گرامی صرف اسماۓحسنی ٰ میں منحصر نہیں ہے، جیسا کہ احادیثِ مبارکہ کے روسے یہ بات معلوم ہوتی ہے۔

(مستفاد از فتاوی عثمای، ج:1، ص:50، ط:دارالعلوم)

چنانچہ تفسیر روح المعانی میں ہے:

"وذكر غير واحد من العلماء أن هذه الأسماء منها ما يرجع إلى صفة فعلية ومنها ما يرجع إلى صفة نفسية ومنها ما يرجع إلى صفة سلبية. ومنها ما اختلف في رجوعه إلى شيء مما ذكر وعدم رجوعه وهو الله والحق أنه اسم للذات وهو الذي إليه يرجع الأمر كله، ومن هنا ذهب الجل إلى أنه الاسم الأعظم، وتنقسم قسمة أخرى إلى ما لا يجوز ‌إطلاقه ‌على ‌غيره سبحانه وتعالى كالله والرحمن وما يجوز كالرحيم والكريم وإلى ما يباح ذكره وحده كأكثرها وإلى ما لا يباح ذكره كذلك كالمميت والضار فإنه لا يقال: يا مميت يا ضار بل يقال: يا محيي يا مميت ويا نافع يا ضار".

(سورة الأعراف، ج:5، ص:115، ط:دارالكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

"والذي أراه أنه لا حصر لأسمائه عزت أسماؤه في التسعة والتسعين، ويدل على ذلك ماأخرجه البيهقي عن ابن مسعود قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أصابه هم أو حزن فليقل: اللهم إني عبدك وابن عبدك وابن أمتك ناصيتي في يدك ماض في حكمك عدل في قضاؤك أسألك بكل اسم هو لك سميت له نفسك أو أنزلته في كتابك أو علمته أحدا من خلقك أو استأثرت به في علم الغيب عندك أن تجعل القرآن ربيع قلبي ونور صدري وذهاب همي وجلاء حزني» الحديث،وهو صريح في عدم الحصر لمكان أو وأو. وحكى محيي الدين النووي اتفاق العلماء على ذلك وأن المقصود من الحديث الإخبار بأن هذه التسعة والتسعين من أحصاها دخل الجنة وهو لا ينافي أن له تعالى أسماء غيرها غير موصوفة بذلك".

(سورة الأعراف، ج:5، ص:115، ط:دارالكتب العلمية)

درمختار  میں ہے:

"(أحب الأسماء إلى الله تعالى عبد الله وعبد الرحمن) وجاز التسمية ‌بعلي ‌ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء كذا في السراجية".

وفی حاشیتہ لابنِ عابدین:

"قوله وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ".

(كتاب الحضر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:417، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي الفتاوى ‌التسمية ‌باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط".

(كتاب الكراهية، الباب الثالث والعشرون...، ج:5، ص:362، ط:رشيديه)

تحفۃ المودود باحکام المولود میں ہے :

"ومما يمنع تسمية الإنسان به أسماء الرب تبارك وتعالى فلا يجوز التسمية بالأحد والصمد ولا بالخالق ولا بالرازق وكذلك سائر الأسماء المختصة بالرب تبارك وتعالى ولا تجوز تسمية الملوك بالقاهر والظاهر كما لا يجوز تسميتهم بالجبار والمتكبر والأول والآخر والباطن وعلام الغيوب...... وأما الأسماء التي تطلق عليه وعلى غيره كالسميع والبصير والرؤوف والرحيم فيجوز أن يخبر بمعانيها عن المخلوق ولا يجوز أن يتسمى بها على الإطلاق بحيث يطلق عليه كما يطلق على الرب تعالى."

(الباب الثامن فی ذکر....، ص:125،دارالبیان)

مفتی شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

" اسماء حسنی میں سے بعض نام ایسے بھی ہیں جن کو خود قرآن و حدیث میں دوسرے لوگوں کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے ، اور بعض وہ ہیں جن کو سوائے اللہ تعالی کے اور کسی کے لئے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ، تو جن ناموں کا استعمال غیر اللہ کے لئے قرآن و حدیث سے ثابت ہے وہ نام تو اوروں کے لئے بھی استعمال ہو سکتے ہیں، جیسے رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ ، اور اسمارحسنی میں سے وہ نام جن کا غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا قرآن  وحدیث سے ثابت نہیں، وہ صرف اللہ تعالی کے لئے مخصوص ہیں، ان کو غیراللہ کے لئے استعمال کرنا اتحادِ مذکور میں داخل اور ناجائز و حرام ہے، مثلاً رحمٰن ، سبحان، رزاق ، خالق، غفار، قدوس وغیرہ ، پھر ان مخصوص ناموں کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا اگر کسی غلط عقیدہ کی بناء پر ہے کہ اس کو ہی خالق یا رازق سمجھ کر ان الفاظ سے خطاب کر رہا ہے تب تو ایسا کہنا کفر ہے اور اگر عقیدہ غلط نہیں محض بے فکری یا بے سمجھی سے کسی شخص کو خالق ، رزاق یا رحمن سبحان کہہ دیا تو اگرچہ کفر نہیں، مگر مشرکانہ الفاظ ہونے کی وجہ سے گناہ شدید ہے ، افسوس ہے کہ آج کل عام مسلمان اس غلطی میں مبتلا ہیں ۔۔۔۔۔۔۔’’ایسا کرنا گناہِ کبیرہ ہے، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا"۔

(تفسیر معارف القرآن، تفسیر آیت:180،ج:4،ص:132،/133،ط :معارف القرآن)

اور مفتی یوسف لدھیانوی  صاحب رحمہ اللہ لکھتےہیں:

" عبد کا لفظ ہٹاکر اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ بندے کو پکارنا نہایت قبیح ہے، اللہ تعالیٰ کے نام دو قسم کے ہیں:ایک قسم ان اسمائے مبارکہ کی ہے جن کا استعمال دُوسرے کے لیے ہو ہی نہیں سکتا، جیسے:اللہ، رحمن، خالق، رزّاق وغیرہ۔ ان کا غیراللہ کے لیے  استعمال کرنا قطعی حرام اور گستاخی ہے، جیسے کسی کا نام’’عبداللہ‘‘ہو اور’’عبد‘‘کو ہٹاکر اس شخص کو ’’اللہ صاحب‘‘کہا جائے، یا ’’عبدالرحمن‘‘کو’’رحمن صاحب‘‘ کہا جائے، یا ’’عبدالخالق‘‘ کو’’خالق صاحب‘‘ کہا جائے، یہ صریح گناہ اور حرام ہے، اور دُوسری قسم ان ناموں کی ہے جن کا استعمال غیراللہ کے لیے بھی آیا ہے، جیسے قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’روٴف رحیم‘‘ فرمایا گیا ہے، ایسے ناموں کے دُوسرے کے لیے بولنے کی کسی حد تک گنجائش ہوسکتی ہے، لیکن ’’عبد‘‘ کے لفظ کو ہٹاکر اللہ تعالیٰ کا نام بندے کے لیے  استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں، بہت سے لوگ اس گناہ میں مبتلا ہیں اور یہ محض غفلت اور بے پروائی کا کرشمہ ہے"۔

(آپ کے مسائل  اور ان کا حل،ج:8،ص:268، 269،،ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں