بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ سے محبت کا دعوی کرنا، اور لوگوں کے سامنے گناہوں کا اقرار کرنا


سوال

 ایک انسان جنون کی حد تک اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہو،  لیکن وہ کہے میں شرابی ہوں، زنا کرتا  ہوں، وغیرہ لیکن دین اور مذہب اور احادیث کے بارے میں سب جانتا ہو ں اور نصیحتیں بھی کرتا ہوں ، کیا ایسے شخص  کے دل میں اتنی برائی ہو سکتی ہے؟

جواب

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ :" اے مخاطب کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو، تو میری اتباع کرو"

{قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله} [آل عمران:31]

یعنی اللہ سے محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے ذریعہ جو احکامات اللہ رب العزت نے عطا فرمائے ہیں،  ان پر بلا چوں چراں عمل پیرا ہوا جائے، حتی المقدور  أوامر اللہ کو بجا لائے، اور منہیات سے بچا جائے۔ لہذا صورت  مسئولہ میں اگر کوئی شخص اللہ سے محبت کا دعویدار ہو، تاہم اس کے احکامات پر عمل کرنے کے بجائے، نا صرف  گناہوں کا دلدادہ  ہو، بلکہ برملا لوگوں کے سامنے اپنے کردہ گناہوں کا اقرار  و اظہار بھی کرتا ہو، تو ایسا شخص اپنے دعوی میں سچا قرار نہیں پائے گا۔

محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : 

"تم اللہ کی نافرمانی کرتے ہو، اور اس سے محبت کا دم بھرتے ہو، جب تم برائی کرتے ہو تو   یہ تمہارے لیے عار کی بات ہے 

اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے،  کیوں کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی اطاعت کرتا ہے۔"

شعب الإيمان للبيهقيمیں ہے:

٤٩١ - أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أنا الحسن بن محمد بن إسحاق، ثنا أبو عثمان الحناط، ثنا محمد بن بشير الكندي، ثنا إبراهيم بن مسلم المزني قال: قال الحسن بن محمد ابن الحنفية: من أحب حبيبا

لم يبغضه ثم قال:

تعصي الإله وأنت تظهر حبه ... عار عليك إذا فعلت شنيع

لو كان حبك صادقا لأطعته ... إن المحب لمن أحب مطيع."

( العاشر من شعب الإيمان«وهو باب في محبة الله عز وجل»، معاني المحبة، ١ / ٣٨٦، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

رہی بات ایسے شخص کے وعظ و نصیحت کرنے کی، تو حديث شریف میں آتا ہے کہ  آخرت میں اہل جنت کا جہنمیوں سے گزر ہوگا ، تو جنتی  جہنمیوں سے دریافت کریں گے کہ تم کس وجہ سے جہنم میں داخل ہوئے،  بخدا ہم تو جنت میں ان باتوں کی وجہ سے گئے ہیں، جو تم نے سکھائی تھیں،  تو جہنمی کہیں گے کہ ہم جو کہا کرتے تھے، اس پر خود عمل نہیں کرتے تھے۔ 

لہذا ایسے افراد کو صدق دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے، اگر بتقاضائے بشری کوئی گناہ سرزد بھی ہوجائے، تو اس کی ہرگز تشہیر نہ کی جائے، بلکہ کردہ گناہ پر  صدق دل سے توبہ کرلی جائے۔

المعجم الكبير للطبرانيمیں ہے:

٤٠٥ - حدثنا أحمد بن يحيى بن خالد بن حيان الرقي، ثنا زهير بن عباد الرواسي، ثنا أبو بكر الداهري عبد الله بن حكيم، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن الوليد بن عقبة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أناسا من أهل الجنة ينطلقون إلى أناس من أهل النار، فيقولون: بم دخلتم النار فوالله ما دخلنا الجنة إلا بما تعلمنا منكم؟ فيقولون، إنا كنا نقول ولا نفعل."

( باب الواو، ما أسند الوليد بن عقْبة، ٢٢ / ١٥٠، ط: مكتبة ابن تيمية - القاهرة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503101413

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں