بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ اور حضور کے صفاتی اسماء میں فرق اور حدیث


سوال

1۔عرض ہے کہ چند آیات و احادیث کے متعلق دریافت کرنا تھا، میں قرآن کریم کی اس آیت یا کسی بھی آیت کا منکر نہیں ہوں، سوال کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں،ایک بات مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ سورۃ فتح آیت نمبر 10 میں حضور کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ قرار دیا گیا ہے،اور یہاں مفسرین نے  ترجمہ میں لفظِ"  گویا  یا جیسے، جیسا کہ " کے الفاظ استعمال نہیں کیے،بلکہ بے شک اور درحقیقت کا لفظ  استعمال کیا ہے،اور اس پر زیادہ تفتیش سے منع کیا ہے، اب میں  حضور کے ہاتھ کو اللہ کا ہاتھ سمجھوں یا غیر اللہ کا؟

2۔ ہم کسی بندے کو کریم یا حق نہیں کہہ سکتے، جب کہ اللہ تعالیٰ کی  بہت ساری صفات حضور ﷺ پر بھی بولی گئی ہیں، جیسا کہ" اول و آخر، ظاہر و باطن، حسیب وغیرہ" تو کیا حضور بھی ظاہر و باطن ہیں، اول و آخر ہیں، اگر ایسا ہے تو کیوں؟

3۔میرا ایک دوست جوکہ ماضی میں ایک مادہ پرست انسان تھا،دنیا جہاں کی خرابیاں اس میں پائی جاتی تھیں،لیکن پھر وہ بالکل تبدیل ہوگیا،اس میں تقوی نظر آتا ہے،وہ ایک شخص سے ملنے کے بعد متقی انسان بن گیا،ہر وقت عبادت اور ذکر میں مشغول ہوتا ہے،مجھے کہتا ہے کہ اس بزرگ نے میری زندگی بدل دی،کہتا ہے کہ" اس مؤمن کا ہاتھ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے، میں نے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ دیکھا اور پکڑا ہے،مجھے حدیث (بخاری،نمبر6502)سناتا ہے کہ: اللہ بندہ مؤمن کا ہاتھ بن جاتا ہے،مجھے اس حدیث کی وضاحت فرمائیں،کیوں کہ میں دینِ اسلام کی بہت سی باتوں پر غور کرکے نفسیاتی دباؤ اور الجھن کا شکار ہوچکا ہوں، دین کی بہت ساری باتوں کو نعوذ باللہ میں شرک سمجھنے لگ جاتا ہوں، اس لیے آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں۔

جواب

1۔ واضح رہے کہ مذکورہ آیت "آیات ِ متشابہات" میں سے ہے،اور آیاتِ متشابہات یا اللہ تعالیٰ کی صفاتِ متشابہات  کے بارے میں اجمالاً یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ ان الفاظ سے اللہ کی جو مراد ہے وہ حق اور صحیح ہے، خود کوئی معنی متعین کرنے کی کوئی فکر نہ کرنا چاہیے ؛کیوں کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے سوالات نہیں کیے، نیز کبارِ تابعین وتبع تابعین مثلاً سفیانِ ثوری، سفیان بن عیینہ، لیث بن سعد، عبد اللہ بن مبارک وغیرہم رحمة اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا جو آیات اللہ کی ذات وصفات کے متعلق آئی ہیں ان کو جس طرح وہ آئی ہیں، اسی طرح بغیر کسی تشریح و تاویل کے رکھ کر ان پر ایمان لانا چاہیے۔ ماخوذ ازمعارف القرآن: ۳/۵۷۴۔

صورت مسئولہ میں چونکہ حضور اکرم ﷺ صحابہ کرام سے   اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجاآوری  پر بیعت لے رہے تھے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ سے بیعت کو خود سے بیعت  کرنے سے تعبیر کیا کہ  یہ لوگ صورۃً تو حضورﷺ سے بیعت کر رہے ہیں،مگر حقیقتاً اللہ سے بیعت کر رہے ہیں، اور اس  کی مثالیں قران میں جا بجا ملتی ہیں: جیسے کہ   "مَّنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ." (سورۃ النساء)

جو شخص رسول اللہ ﷺ کی اطاعت  کرتا ہے تو وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے، لہٰذا مذکورہ آیت یا اس جیسی دیگر آیات سے  مراد یہ  ہوتا ہےکہ جو حضور ﷺ  سے اللہ کی اطاعت پر  بیعت کرتا  ہے، یا حضور ﷺ کی اطاعت کرتا ہے تو وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے، یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ حضور کا ہاتھ  جوکہ جسم پر مشتمل ہے   وہی اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔

2۔ واضح رہے  کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ،اسماء و صفات  مخلوق میں سے کسی کی ذات ،وصفات  کے بالکل مشابہ نہیں ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے،یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لیے رہے گی، اور قدیم ذات کے اسماء اور صفات بھی اس کی طرح قدیم ہواکرتے ہیں، جبکہ مخلوق حادث(فنا ہونے والے) ہیں ،تو ان کے اسماء وصفات میں حدوث (فنا ہونے والا) معنی پایا جاتا ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ." (اس کی طرح کا کوئی نہیں ہے)۔

اس کے باوجود   اللہ تعالیٰ کے بعض  اسماء وصفات میں خصوص اور بعض میں  عموم ہوتا ہے،جن اسماء وصفات میں عموم ہے اور وہ  خالق ومخلوق  دونوں پر بولے گئے ہوں  تو وہ لفظا تو ایک جیسے ضرور ہوں گے، مگر معنی حقیقی کے اعتبار سے وہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوں گے، جیسے کہ اول وآخراللہ تعالی کے صفاتی نام ہیں، اور حضورﷺ کے لیے بھی استعمال ہویے ہیں، مگر  اللہ تعالیٰ کے لیے جب ان کا استعمال ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ذات جو تمام مخلوقات سے پہلے بھی موجود تھی،اور ساری مخلوقات کے فنا ہوجانے کے بعد بھی موجود  رہے گی، لیکن حضورﷺ کے لیے جب استعمال ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ  نبی جو پیدائش میں سب انبیاء علیہم السلام  بلکہ تمام مخلوقات سے پہلے ہیں،اور بعثت کے اعتبار سے سب سے آخری ہیں،(جیسا کہ خود حضورﷺ کا ارشاد ہے،کہ میں پیدائش کے اعتبار سے تمام انبیاء علیہم السلام سے پہلے اور بعثت کے اعتبار سے سب سے آخری ہوں)کیوں کہ آپ کی بعثت سب سے آخر میں ہوئی،اسی طرح  حسیب کا استعمال اللہ تعالیٰ کے لئے "کافی" کے معنی میں ہوتا ہے، مگر  حضورﷺ کے  لیے صاحب شرف و نسب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

لہٰذا  اللہ تعالیٰ کا ہر نام اور صفت جو حضورﷺ کے لیے استعمال ہوا ہو اس میں لفظاً  موافقت  ہوتی ہے،مگر معنی ً کلیۃًموافقت نہیں ہوتی، اس وجہ  سے ان کا استعمال حضور کے لیے  شرعًا درست ہے۔

سوال میں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے ،ذیل میں اس کی عبارت نقل کی گئی ہے، اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ  جب بندہ نیک اعمال اور نوافل کے ذریعہ میری قربت حاصل کرنے کی مسلسل  کوشش کرتا رہتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، اور جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں  اس کے کان،آنکھ،ہاتھ اور پاؤں کی حفاظت کرتا ہوں،تو  وہ وہی سنتا ،دیکھتا اور کرتا ہے جو اس کے لیے جائز ہو، اور ہر اس عمل سے بچتا ہے جو ناجائز ہو، یعنی پھر نیک اعمال کرنے میں اللہ تعالیٰ ایسے بندے کا مددگار بن جاتا ہے، سو یہ حدیث اللہ کی مدد سے کنایہ اور مجاز ہے، اس کا یہ  مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقتاً اس کے آنکھ،کان ،ہاتھ اور پاؤں بن جاتا ہے،  کیونکہ اللہ تعالیٰ  جسم اور اعضاء سے پاک ہے، سننا دیکھنا اس کے ذاتی صفات ہیں، مگر وہ سننے ،دیکھنے کے لیے بندوں کی طرح کان اور آنکھ کا محتاج نہیں ہے، اب وہ کیسے سنتااور دیکھتا ہے اس کی حقیقت جاننے میں زیادہ غور وخوض کرنا نہیں چاہیے،اور یہی اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، لہٰذا جو شخص یہ کہتا ہو کہ "فلاں شخص کا ہاتھ اللہ تعالیٰ کا ہا تھ ہے،یا میں نے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ دیکھااور پکڑا ہے "اگر اس کی مراد یہی مجازی معنی ہو جو اوپر ذکر کیاگیا تو درست ہے،لیکن اگر وہ  یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا بھی بندوں کی طرح ہاتھ ،پاؤں  ہے،جسے دیکھا اور پکڑا جاسکتا ہے تو ایسا عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے، بلکہ اس عقیدے سے یہ شخص اہلسنت والجماعت سے خارج ہوجائے گا۔

 سائل کو چوں کہ اس قسم کی  آیات واحادیث میں غور وخوض کرنے سے ذھنی الجھن پیدا ہوتی ہےاس وجہ سے از خود ایسی آیات و احادیث  میں غور وخوض کرکے اپنے عقائد میں اشتباہ پیدا کرنے کا باعث نہ بنے،بلکہ جب ضرورت پڑے تو کسی مستند عالمِ دین سے رجوع کرکے   مذکورہ مقامات سمجھنے کی کوشش کرے۔

       ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"إِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ."

(الفتح:آیت10)

            ترجمہ:         جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں تو وہ (واقع میں ) اللہ تعالیٰ سے بیعت کر رہے ہیں۔

(بیان القرآن،ج3،ص428،ط: مکتبہ رحمانیہ)

       تفسير قرطبی میں ہے:

{ إن الذين يبايعونك إنما يبايعون اللّٰه يد اللّٰهفوق أيديهم فمن نكث فإنما ينكث على نفسه ومن أوفى بما عاهد عليه اللّٰه فسيؤتيه أجرًا عظيمًا (١٠)قوله تعالى:"إن الذين يبايعونك"بالحديبية يا محمد." إنما يبايعون الله"بين أن بيعتهم لنبيه صلى الله عليه وسلم إنما هي بيعة الله، كما قال تعالى:" من يطع الرسول فقد أطاع الله" «٣» [النساء: ٨٠].

   (سورۃ الفتح،ج16،ص268،ط:دارالکتب المصریہ)

         كنز العمال ميں ہے:

"كنت أول النبيين في الخلق وآخرهم في البعث. "ابن لال عن قتادة عن الحسن عن أبي هريرة".

  (کتاب الفضائل،الفصل الثالث ،ج11،ص205،ط:دارالکتب العلمیہ)

         بخاری میں ہے:

"٦٥٠٢ - حدثني محمد بن عثمان بن كرامة، حدثنا الله بن أبي نمر، عن عطاء، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله قال: من عادى لي وليًّا فقد آذنته بالحرب، و ما تقرب إلي عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه، و ما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه، فإذا أحببته: كنت سمعه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به، و يده التي يبطش بها، و رجله التي يمشي بها، و إن سألني لأعطينه، و لئن استعاذني لأعيذنه، و ما ترددت عن شيء أنا فاعله ترددي عن نفس المؤمن، يكره الموت و أنا أكره مساءته."

(کتاب الرقاق،باب التواضع،ص345)

        فتح الباری میں ہے:

  "و قد استشكل كيف يكون الباري جلّ و علا سمع العبد و بصره إلخ و الجواب من أوجه أحدها أنه ورد على سبيل التمثيل و المعنى كنت سمعه و بصره في إيثاره أمري فهو يحب طاعتي ويؤثر خدمتي كما يحب هذه الجوارح ثانيها أن المعنى كليته مشغولة بي فلا يصغي بسمعه إلا إلى ما يرضيني ولا يرى ببصره إلا ما أمرته به ثالثها المعنى أجعل له مقاصده كأنه ينالها بسمعه وبصره إلخ رابعها كنت له في النصرة كسمعه وبصره ويده ورجله في المعاونة على عدوه خامسها قال الفاكهاني وسبقه إلى معناه بن هبيرة هو فيما يظهر لي أنه على حذف مضاف والتقدير كنت حافظ سمعه الذي يسمع به فلا يسمع إلا ما يحل استماعه وحافظ بصره كذلك إلخ سادسها قال الفاكهاني يحتمل معنى آخر أدق من الذي قبله وهو أن يكون معنى سمعه مسموعه لأن المصدر قد جاء بمعنى المفعول مثل فلان أملي بمعنى مأمولي والمعنى أنه لا يسمع إلا ذكري ولا يلتذ إلا بتلاوة كتابي ولا يأنس إلا بمناجاتي ولا ينظر إلا في عجائب ملكوتي ولا يمد يده إلا فيما فيه رضاي ورجله كذلك وبمعناه قال بن هبيرة أيضا وقال الطوفي اتفق العلماء ممن يعتد بقوله أن هذا مجاز وكناية عن نصرة العبد وتأييده وإعانته حتى كأنه سبحانه ينزل نفسه من عبده منزلة الآلات التي يستعين بها ولهذا وقع في رواية فبي يسمع وبي يبصر وبي يبطش وبي يمشي."

   (باب التواضع،ج11،ص344،ط:دارالمعرفہ)

شرح الطحاوی  لصدرالدین حنفی میں ہے:

"فالواجب أن ينظر في هذا الباب، أعني باب الصفات، ‌فما ‌أثبته الله ورسوله أثبتناه، وما نفاه الله ورسوله نفيناه."

(ج1،ص261،ط:موسسۃ الرسالہ،بیروت)

شرح الفقہ الاکبر لملا علی قاری میں ہے:

"و المشهور عند  الجمهور من أهل السنة و الجماعة أنهم لایریدون بنفي التشبیه نفي الصفات بل یریدون أنه سبحانه لایشبه المخلوق أسمائه و صفاته و أفعاله."

        (ص17،ط:اشرفی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں