بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ کی رضامندی حاصل کرنا


سوال

اللہ کی توفیق سے سارے اعمال اور عبادتیں ہوتی ہیں،  لیکن پھر بھی دل میں ایک در د رہتا ہے کہ کہیں میرا رب مجھ سے ناراض تو نہیں ،  ایسی حالت میں کیا کرنا ہے اور اللہ کی رضامندی کیسے حاصل کرنی ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ اگلے نیک عمل کی توفیق ملنا یہ دلیل ہے کہ پہلے نیک عمل پر اللہ تعالی راضی ہے ورنہ آگے یہ نیک عمل کی توفیق نہ دیتے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کو اپنی اعمال اور عبادات پر کامل توجہ دینی ہے،اور اللہ سے یہ امید رکھناچاہیے کہ اللہ مجھ سے راضی ہے،کیوں کہ اللہ کے بارے میں حسنِ ظن ایمان باللہ کی بنیاد ہے اس کی رحمت،جودوسخا،اس کی ہیبت ، اس کے قادر مطلق ہونے پر یقین ہمارے عقیدے کا لا زمی جز ہے،لہذا عبد کو معبود کے بارے میں ہمیشہ بہترین گمان رکھنا چاہیے،  کیوں کہ  اللہ کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا،جب بندہ اللہ کو دل کے یقین کےساتھ پکارتا ہے تو اس کا رب اس کی پکار کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا، یہ اس ذات ِ باری تعالی کی شان کے بر عکس ہے کہ اس کا بندہ بہت مان سے دستِ ِسوال دراز کرے اور وہ عطا کرنے میں بخل کرے، اس کا بندہ جب بھول چوک کر گزرے اور نفس لوامہ کی تنبیہ پہ پلٹ کر اس غفور الرحیم کی جانب توبۃ النصوح کی نیت سے رجوع کرے تو اس کی شان ِ کریمی جوش میں کیوں نہ آئے؟اس کا بندہ اس کی رضا پانے کی طلب میں اعمالِ صالح  کے لیے حریص ہو تو وہ اپنے بندوں  سےبہت  پیار کرتا ہے، کیوں اس کے اجر میں کمی کرے کیوں اس سے محبت نہیں رکھے گا، بات صرف اس سے آس لگانے کی ہے کہ اس کے خزینے تو بھرے پڑے ہیں، البتہ عمل کئے بغیر حسنِ ظن رکھنا تو یہ اللہ سے بے جا تمنائیں لگانے کے قبیل سے ہے، نیز یاد رہے کہ اللہ تعالی کی محبت صرف نیک لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہے ، جو عبادات اور اعمال میں ہمہ تن مصروف رہے ہیں،  بلکہ اللہ تعالی ان لوگوں سے بھی محبت کرتاہے اورتعلق رکھتاہے جن سے گناہ سرزد ہوتےہیں، لیکن  اپنے گناہوں پر پشیمانی کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے توبہ کرتے ہیں۔

دین و ایمان اور ہر  اعمال پر استقامت کے لیے مندرجہ ذیل دعاؤں کا اہتمام فرمائیں :

"( اللّٰهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِى الأَمْرِ وَأَسْأَلُكَ عَزِيمَةَ الرُّشْدِ وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ وَحُسْنَ عِبَادَتِكَ وَأَسْأَلُكَ لِسَانًا صَادِقًا وَقَلْبًا سَلِيمًا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ وَأَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا تَعْلَمُ وَأَسْتَغْفِرُكَ مِمَّا تَعْلَمُ إِنَّكَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ.)"

"(رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.)"

" (اللّٰهُمَّ يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ.)"

" (اللّٰهُمَّ أَعِنِّيْ عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ)"

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]

ترجمہ: ’’یقینًا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔‘‘(بیان القرآن)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: (يقول الله تعالى: أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه إذا ذكرني،‌فإن ‌ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي،وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملأ خير منهم، وإن تقرب إلي شبرا تقربت إليه ذراعا، وإن تقرب إلي ذراعا تقربت إليه باعا، وإن أتاني يمشي أتيته هرولة)."

(كتاب التوحيد، باب: قول الله تعالى: {ويحذركم الله نفسه}، ج: 6، ص: 2693، ط: دار الفكر بيروت)

ترجمہ:"میں اپنے بندے کیساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے،میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے خلوت میں یاد کرے تو میں اسے خلوت میں یاد کرتا ہوں ،جلوت میں کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں ،وہ میری جانب ایک بالشت آگے بڑھے تو میں ایک گز بڑھتا ہوں ،وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں دوڑ کر اسکی جانب جاتا ہوں۔"

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"من كان إيمانه مشوبا يقبل الوسوسة ولا يردها وقيل المعنى أن الوسوسة أمارة الإيمان لأن اللص لا يدخل البيت الخالي ولذا روي عن علي رضي الله عنه وكرم الله وجهه إن الصلاة التي لا وسوسة فيها إنما هي صلاة اليهود والنصارى رواه مسلم."

(باب في الوسوسة: ج:1، ص: 320، ط: المشکاة الإسلامیة)

وفیه أیضاً:

"أللهم إني أسألك الثبات في الأمر أي في جميع الأمور المتعلقة بأمر الدين والعزيمة على الرشد، وهي كالعزم عقد القلب على إمضاء الأمر، وقدم الثبات على العزيمة وإن كان فعل القلب مقدما على الفعل والثبات عليه، اشارة إلى أنه المقصود بالذات؛ لأن الغايات مقدمة في الرتبة وإن كانت مؤخرة في الوجود؛ لقوله تعالى: الرحمن علم القرآن، خلق الإنسان، وكذا حققه الطيبي، وفي الصحاح: عزمت على الأمر عزما وعزيمة إذا أردت فعله وقطعت عليه اھ والرشد: بضم الراء وسكون المعجمة ويروى بفتحهما بمعنى الهداية، والمراد لزومها ودوامها."

(باب الدعاء في التشهد: ج:4، ص: 38، ط: المشکاة الإسلامیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101505

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں