بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ کے ساتھ نبی کریم ﷺ کو گواہ بنانا


سوال

 کیا ہم مسلمان آپس کے کسی عہد و پیمان میں  اللہ کے ساتھ نبی مہربان ﷺ کو گواہ رکھ سکتے ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں!

جواب

اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کوئی عہد کرنا تو صحیح ہے،  لیکن سرکارِ دوعالم  ﷺ  کو گواہ بنا کر عہد کرنے  سے فقہاءِ کرام نے  منع فرمایا ہے؛ کیوں کہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا صرف اللہ کی صفت ہے  اور کوئی نبی یا ولی اس کا شریک نہیں۔ لہٰذا کسی بھی معاملے میں اگر آدمی سچا ہو تو  اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالٰی کو گواہ بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن نبی کریم ﷺ  کو گواہ بنانا جائز نہیں۔

چنانچہ فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"حاصل یہ ہے کہ ہر جگہ ہر وقت حاضر ناظر ہونا اللہ تعالی کی صفتِ خاصہ ہے، کسی اور فرشتے یا پیغمبر کے  لیے بھی یہ ثابت کرنا درست نہیں، بلکہ شرک ہے۔ جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور وہاں کوئی گواہ سامنے نہیں تھا،  بلکہ خدا اور رسول کو گواہ بنایا تو اس نے رسول کو خدا کی طرح حاضر ناظر مانا، یا تمام فرشتوں کو گواہ بنایا تو ان کو خدا کی طرح حاضر ناظر مانا، لہذا یہ مشرک ہوگیا۔"

(فتاوی محمودیہ، ج ۱۰، ص ۶۱۴)

وفي الدر المختار:

"تزوج امرأۃ بشهادۃ اللّٰه ورسوله لم یجز؛ بل قیل: یکفر…" الخ

وفي رد المحتار:

"(قوله: قيل: يكفر) لأنه اعتقد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عالم الغيب، قال في التتارخانية: وفي الحجة: ذكر في الملتقط: أنه لايكفر؛ لأنّ الأشياء تعرض على روح النبي صلى الله عليه وسلم، وأنّ الرسل يعرفون بعض الغيب، قال تعالى: {عالم الغيب فلايظهر على غيبه أحدًا} [الجن: 26] {إلا من ارتضى من رسول} [الجن: 27]-. اهـ. قلت: بل ذكروا في كتب العقائد أن من جملة كرامات الأولياء الاطلاع على بعض المغيبات."

( شامي / کتاب النکاح ۴ ؍ ۸۷ )

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3 / 94):

"وَفِي الْخَانِيَّةِ وَالْخُلَاصَةِ: لَوْ تَزَوَّجَ بِشَهَادَةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ لَايَنْعَقِدُ وَيَكْفُرُ لِاعْتِقَادِهِ أَنَّ النَّبِيَّ يَعْلَمُ الْغَيْبَ."

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5 / 130):

"وَمَحَلُّ الِاخْتِلَافِ عِنْدَ عَدَمِ قَصْدِ الِاسْتِهْزَاءِ وَبِقَوْلِهَا ..... وَبِتَزَوُّجِهِ بِشَهَادَةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ."

(باب احکام المرتدین)

وفي فتاوى قاضي خان:

"رجل تزوج امرأة بشهاده الله و رسوله كان باطلًا لقوله صلى الله عليه وسلم: لا نكاح إلا بشهود و كل نكاح يكون بشهادة الله و بعضهم جعلوا ذلك كفرًا؛ لانه يعتقد ان الرسول صلى الله عليه وسلم يعلم الغيب و هو كفر."

(فتاویٰ قاضی خان علی ھامش الفتاویٰ الہندیہ، ۱/۳۳۴)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1 / 320):

"فلو تزوج امرأة بشهادة الله تعالى ورسوله لا يجوز النكاح وعن قاسم الصفار وهو كفر محض؛ لأنه اعتقد أن رسول الله - عليه السلام - يعلم الغيب وهذا كفر،.

وفي التتارخانية: إنه لا يكفر لأن بعض الأشياء يعرض على روحه عليه الصلاة والسلام فيعرف ببعض الغيب قال الله تعالى: {عالم الغيب فلايظهر على غيبه أحدًا} [الجن: 26] {إلا من ارتضى من رسول} [الجن: 27]

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3 / 29):

"تزوج امرأة بشهادة الله ورسوله لا يجوز؛ لأن هذا نكاح لم يحضره شهود، وعن أبي القاسم الصفار رحمه الله أنه قال: يكفر من فعل هذا؛ لأنه اعتقد أن رسول الله عليه السلام عالم الغيب."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں