بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ کی راہ میں قیام کرنا


سوال

کسی انسان کاکچھ دیر کے لیے اللہ کی راہ میں قیام کرنا (ٹھہرنا) کتنے سال کی عبادت سے افضل ہے؟

جواب

لفظ  '' فی سبیل اللہ'' ایک و سیع ا لمعنیٰ لفظ ہے ، دین کی خا طر اور اللہ تعا لیٰ کی ر ضا کے لیے جو محنت و مشقت کی جا ئے وہ اس کے مفہو م میں دا خل ہے، لہذا دین کے تما م شعبوں میں کا م کر نے وا لے افر اد اس کا مصد اق ہیں۔اور اس کے علاوہ دیگر قرآئن ، سیاق وسباق سے بھی اس کے مصداق و مفہوم میں فرق آتا ہے،  عام طور پر جب یہ مطلق بولا جائے تو اس سے  جہاد فی سبیل اللہ مراد ہوتا ہے، احادیث مبارکہ میں اللہ کے راستے میں نکلنے میں بہت سے فضائل بیان کیاگیا۔

مسند الإمام أحمد بن حنبل  میں ہے:

"حدثنا أبو المغيرة، حدثنا معان بن رفاعة، حدثني علي بن يزيد، عن القاسم، عن أبي أمامة قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية من سراياه قال: فمر رجل بغار فيه شيء من ماء قال: فحدث نفسه بأن يقيم في ذلك الغار فيقوته ما كان فيه من ماء ويصيب ما حوله من البقل، ويتخلى من الدنيا، ثم قال: لو أني أتيت نبي الله صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له فإن أذن لي فعلت، وإلا لم أفعل. فأتاه فقال: يا نبي الله، إني مررت بغار فيه ما يقوتني من الماء والبقل، فحدثتني نفسي بأن أقيم فيه وأتخلى من الدنيا. قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إني لم أبعث باليهودية ولا بالنصرانية، ولكني بعثت بالحنيفية السمحة، والذي نفس محمد بيده لغدوة أو روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها، ولمقام أحدكم في الصف خير من صلاته ستين سنة."

( مسند الانصار، حديث أبي أمامة الباهلي الصدي بن عجلان بن عمرو ويقال: ابن وهب الباهلي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ٣٦ / ٦٢٣ - ٦٢٤، رقم الحديث: ٢٢٢٩١، ط: مؤسسة الرسالة)

"مسند احمد"  کی روایت میں ہے کہ  حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سریہ میں تھے، ایک ساتھی کا گزر ایک غار سے ہوا جس میں ضرورت کے بقدر پانی اور کھیتی تھی، اس کا دل چاہا کہ گھر بار سے  کنارہ کشی کرکے اس میں سکونت اختیار کرلے، اور اپنا گزر بسر غار میں موجود پانی اور اطراف کی کھیتی سے کرے،  پھر اس نے اپنے جی میں کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو كر اس کا تذكره کروں گا،  اگر انہوں نے مجھے اجازت دی تو ایسا ہی کروں گا، وگرنہ نہ کروں گا۔پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا ارادہ بیان کیا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ مجھے یہودیت یا نصرانیت دے کر نہیں بھیجا گیا ہے ، بلکہ مجھے آسان روشن شریعت دے کر بھیجا گیا ہے، ( یعنی رہبانیت و دنیا سے بالکلیہ قطع تعلق کرنے کی تعلیم دے کر نہیں بھیجا گیا ہے)  قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضه قدرت میں محمد  کی جان ہے، یقینًا صبح  یا شام کے وقت اللہ کے راستہ میں  نکلنا  دنیا و  مافیہا سے بہتر ہے،  تم میں سے کسی کا  صف ( خواہ صف جہاد ہو یا  نماز کی جماعت کی  صف ہو)  میں کھڑا ہونا  اس کے اکیلے  ساٹھ  سال نماز پڑھنےسے افضل ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(ولمقام أحدكم) : بفتح الميم ; أي لوقوفه وثباته (في الصف) : أي: صف القتال، أو صف الجماعة (خير من صلاته) : أي: على انفراده (ستين سنة) : أراد به التكثير، فلا ينافي ما ورد من رواية سبعين.  رواه أحمد."

( كتاب الجهاد،6 /2491،ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں