بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے مجھے مسلمان پیدا کیا کہنے کا حکم


سوال

"اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے مجھے مسلمان پیدا کیا" سوال یہ ہے کہ زبان سے یہ الفاظ کہنا کیسا ہے؟بعض اسکالرز کہتے ہیں کہ ان الفاظ کا کہنا غلط ہے؛کیوں کہ بچوں پر غلط اثر ہوتا ہے۔ دلیل سے جواب دیں؛تاکہ سکون ملے۔

جواب

اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں، نعمتوں کا شکر ادا کرنا اللہ تعالیٰ کو پسند بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم بھی دیا ہے، قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ."(سورة إبراهيم، الآية:٧)

ترجمہ:"اور وہ وقت یاد کرو جب کہ تمہارے رب نے تم کو اطلاع فرمادی کہ اگر تم شکر کروگے تو تم کو زیادہ نعمت دوں گا اور اگر تم نا شکری کرو گے تو (یہ سمجھ رکھو) میرا عذاب بڑا سخت ہے۔"(بیان القرآن)

ان بے شمار نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ایمان کی نعمت ہے، ہر مسلمان کو اس نعمت کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے، اس نعمت کے مل جانے کو اپنا کمال نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ نعمت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہی کے فضل سے ہے۔

احادیثِ مبارکہ سے بھی ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اسلام ایک بہت بڑی اور عظیم نعمت ہے، جس کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے، جیسا کہ شعب الایمان للبیھقی میں ہے:

"حدثنا المعتمر بن سليمان قال سمعت أبا الأشهب عن الحسن قال: سمع- نبي الله صلى الله عليه وسلم رجلًا يقول: الحمد لله على الإسلام فقال: "إنك لتحمد الله على نعمة عظيمة."

ترجمہ:’’اللہ کے نبی ﷺ نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا:اسلام کی نعمت پر اللہ کا شکر ہے، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:بے شک آپ ایک بہت بڑی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کر رہے ہو۔‘‘

"وروينا أيضًا مرسلًا عن منصور بن صفية أن النبي صلى الله عليه وسلم مر برجل وهو يقول: الحمد لله الذي هداني إلى الإسلام، وجعلني من أمة أحمد فقال النبي صلى الله عليه وسلم : "شكرت عظيما."

(باب في تعديد نعم الله عز وجلّ وما يجب من شكرها، ج:٦، ص:٢٨١، ط:مكتبة الرشد)

’’نبی ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے، وہ یہ کہہ رہا تھا:تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے مجھے اسلام کی (نعمت) کی ہدایت دی، اور مجھے احمدﷺ کی امت میں سے بنایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:آپ نے بہت بڑی نعمت کا شکر ادا کیا۔‘‘

اسی طرح غزوۂ خندق کے موقع پر آپ علیہ الصلاۃ والسلام ان الفاظ میں اسلام کی نعمت کا شکر ادا فرمارہے ہیں کہ اگر اللہ کی طرف سے ہدایت یا فضل کا معاملہ نہ ہوتا تو ہم از خود اسلام (کیسے قبول کرتے)، یہ تو اللہ کا فضل ہوا کہ اللہ نے ہمیں اسلام کی طرف ہدایت دی،  جیساکہ صاحبِ مرقاۃ المفاتیح لکھتے ہیں:

"(وعن البراء - رضي الله عنه - قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينقل التراب) أي: مع الأصحاب (يوم الخندق) أي: يوم الأحزاب (حتى اغبر بطنه) أي: صار ذا غبار (يقول) : استئناف أو بدل من ينقل، أو حال من ضميره (والله) : قسم (لولا الله) أي: لولا هدايته أو فضله علينا معشر الإسلام بأن هدانا (ما اهتدينا) أي: بنفسنا إلى الإسلام، وهو مقتبس من قوله تعالى: {وما كنا لنهتدي لولا أن هدانا الله} [الأعراف: 43]."

(كتاب الآداب، باب البيان والشعر، ج:٧، ص:٣٠١٦، رقم:٤٧٩٢، ط:دارالفكر)

اسلام کی نعمت پر شکر ادا کرتے رہنے کی عادت ڈلوانے کے لیے اور بار بار اس نعمت کو یاد رکھنے کے لیے کھانے کے موقع پر بھی پیارے نبی ﷺ نے ہمیں اس نعمت کے شکر ادا کرنے کی تلقین کی ہے، جیساکہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ جب اپنے کھانے سے فارغ ہوتے تو یہ فرماتے:تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں کھلایا، ہمیں پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا، ملاحظہ ہو:

"وعن أبي سعيد الخدري - رضي الله تعالى عنه - قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من طعامه» ) : أي من أكل مأكوله الذي كان يأكل منه في بيته مع أهله، أو مع أضيافه، أو في منزل بعض أصحابه على ما يدل عليه صيغة الجمع الآتي، ويمكن أنه شارك أمته الضعيفة من ذاته الشريفة. (قال: «الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا ‌وجعلنا ‌مسلمين» ) : أي موحدين منقادين لجميع أمور الدين، ثم فائدة الحمد بعد الطعام أداء شكر المنعم وطلب زيادة النعمة ; لقوله تعالى: {لئن شكرتم لأزيدنكم} [إبراهيم: 7] وفيه استحباب تجديد حمد الله عند تجدد النعمة من حصول ما كان الإنسان يتوقع حصوله، واندفاع ما كان يخاف وقوعه، ثم لما كان الباعث هنا هو الطعام ذكره أولا لزيادة الاهتمام به، وكان السقي من تتمته لكونه مقاربا له في التحقيق غالبا، ثم استطرد من ذكر النعمة الظاهرة إلى النعم الباطنة، فذكر ما هو أشرفها، وختم به ؛ لأن المدار على حسن الخاتمة مع ما فيه من الإشارة إلى كمال الانقياد في الأكل والشرب وغيرهما قدرا ووصفا ووقتا، احتياجا واستغناء بحسب ما قدره وقضاه."

(مرقاة المفاتيح، كتاب الأطعمة، ج:٧، ص:٢٧١٢، رقم:٤٢٠٤، ط:دارالفكر)

صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی اسلام کی نعمت پر شکر ادا کرنا ثابت ہے، جیسا کہ حضرت خزیمہ بن سواد رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے، وہ خود آپ علیہ السلام کو مخاطب بنا کر فرماتے ہیں کہ اسلام لانے سے قبل میرے ساتھیوں میں سب سے زیادہ اسلام سے میں  دور تھا، لیکن اب میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ مجھے آپ ﷺ کے پاس لے آئے اور میں نے آپ ﷺ کی تصدیق کی (اور اسلام قبول کیا)، جیساکہ  سیرتِ حلبیہ میں ہے:

"ومنها وفد بني محارب. وفد على رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة من بني محارب وفيهم خزيمة بن سواد، وكانوا أغلظ العرب وأشدهم على رسول الله صلى الله عليه وسلم أيام عرضه نفسه على القبائل في المواسم يدعوهم إلى الله تعالى، فجلسوا عنده يوما من الظهر إلى العصر، وأدام صلى الله عليه وسلم النظر إلى رجل منهم، وقال له: قد رأيتك، فقال له ذلك الرجل: إي والله لقد رأيتني، وكلمتك بأقبح الكلام، ورددتك بأقبح الرد بعكاظ وأنت تطوف على الناس. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، ثم قال: يا رسول الله ما كان في أصحابي أشد عليك يومئذ ولا أبعد عن الإسلام مني، فأحمد الله الذي جاء بي حتى صدقت بك، ولقد مات أولئك النفر الذين كانوا معي على دينهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن هذه القلوب بيد الله عز وجل. فقال: يا رسول الله استغفر لي من مراجعتي إياك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌إن ‌هذا ‌الإسلام ‌يجب ‌ما ‌قبله: يعني الكفر، أي مسح رسول الله صلى الله عليه وسلم وجه خزيمة بن سواد فصارت له غرة بيضاء، وأجازهم كما يجيز الوفود، ثم انصرفوا إلى أهليهم."

(‌‌باب يذكر فيه ما يتعلق بالوفود التي وفدت عليه صلى الله عليه وسلم، ج:٣، ص:٣٣٢، ط:دارالكتب العلمية)

اسلام کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لیے  اور کفر کی نفرت ہمارے دلوں میں اجاگر کرنے کے لیے آپ ﷺ نے ہمیں دعائیں بھی سکھائی، دعا ملاحظہ ہو:

’’اے اللہ! ایمان کو ہمارے لیے محبوب بنا دے، اور اسے ہمارے دلوں میں مزین کر دے۔ کفر، فسق اور نافرمانی کو ہمارے لیے ناپسندیدہ بنا دے، اور ہمیں ہدایت والوں میں سے بنا دے۔ اے اللہ! ہم کو مسلمان ہونے کی حالت میں فوت کرنا، اور مسلمان ہی زندہ رکھنا، اور ہمیں نیکوں کے ساتھ ملا دے۔ نہ ہم رسوا ہوں اور نہ فتنے میں ڈالے گئے ہوں۔‘‘

المستدرک للحاکم میں ہے:

"عن عبيد بن رفاعة بن رافع الزرقي، عن أبيه، قال: كان يوم أحد انكفأ المشركون، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «استووا حتى أثني على ربي»، فصاروا خلفه صفوفا، فقال: «اللهم لك الحمد كله، اللهم لا مانع لما بسطت، ولا باسط لما قبضت، ولا هادي لمن أضللت، ولا مضل لمن هديت، ولا معطي لما منعت، ولا مانع لما أعطيت، ولا مقرب لما باعدت، ولا مباعد لما قربت، اللهم ابسط علينا من بركاتك ورحمتك، وفضلك ورزقك، اللهم إني أسألك النعيم يوم القيامة، والأمن يوم الخوف، اللهم عائذ بك من شر ما أعطيتنا، وشر ما منعتنا، اللهم حبب إلينا الإيمان، وزينه في قلوبنا، وكره إلينا الكفر والفسوق والعصيان، واجعلنا من الراشدين،اللهم توفنا مسلمين، وأحينا مسلمين، وألحقنا بالصالحين، ‌غير ‌خزايا، ‌ولا ‌مفتونين، اللهم قاتل الكفرة الذين يكذبون رسلك، ويصدون عن سبيلك، واجعل عليهم رجزك وعذابك إله الحق."

(كتاب الدعاء، والتكبير، والتهليل، والتسبيح والذكر، ج:١، ص:٦٨٦، رقم:١٨٦٨، ط:دارالكتب العلمية)

شکر کی ادائیگی کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، زبان سے "الحمد للہ"  کہنا بھی اس کی ایک صورت ہے، صرف یہ کہنا کہ "اے اللہ آپ کا شکر ہے" بھی شکر کی ادائیگی میں داخل ہے، اسی طرح تمام عبادات کی ادائیگی در حقیقت اللہ تعالی ٰ کے شکر کی ادائیگی میں داخل ہے،لہٰذا اس تفصیل کی رو سے اگر کوئی مسلمان یہ کہتا ہے کہ"اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے مجھے مسلمان پیدا کیا"، تو اس کا یہ کہنا بالکل درست ہے، ایمان کی نعمت پر زبانی شکر میں داخل ہے۔جیسا کہ تفسیر الرازی میں ہے:

"ثم قال تعالى: وإن تشكروا يرضه لكم والمراد أنه لما بين أنه لا يرضى الكفر بين أنه يرضى الشكر، وفيه مسائل...المسألة الثانية: الشكر حالة مركبة من قول واعتقاد وعمل أما القول فهو الإقرار بحصول النعمة وأما الاعتقاد فهو اعتقاد صدور النعمة من ذلك المنعم."

(سورة الزمر، ج:٢٦، ص:٤٢٦، ط:دار إحياء التراث العربي)

خطباتِ حکیم الامت میں حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

’’(إن الدين عند الله الإسلام)... اس آیت سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اسلام کی نعمت جو ہم کو حق تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں، اس کا مقتضا یہ ہے کہ ہم کو اس نعمت کا شکریہ ادا کرتے رہنا چاہیے مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ادنی ادنی نعمت پر تو شکر کرتے ہیں مگر اسلام عطا ہونے پر شکر بہت کم لوگ کرتے ہیں۔۔۔  ہر شخص اپنے دل میں غور کرے کہ چوبیس گھنٹے میں کوئی ساعت بھی ایسی ہوتی ہے جس میں ہر شخص خدا تعالی کا اس لیے شکر کرے کہ اس نے ہم کو مسلمان بنایا، اسلام و ایمان عطا کیا، مسلمانوں کے گھر پیدا کیا، غالباً کوئی شخص بھی ایسانہ نکلے گا الا ماشاء اللہ، تو یہ ہماری کتنی بڑی کوتاہی ہے کہ ایسی نعمت پر شکر کی توفیق ہم کو نہیں ہوتی ، جس سے بڑی کوئی نعمت نہیں اور مرنے کے بعد ہمیشہ کی نجات کا مدار اسی پر ہے۔ بھلا اگر یہ نعمت سلب ہو جائے خدانخواستہ تو پھر ہمارا کہاں ٹھکانا ر ہے گا، جب یہ اتنی بڑی نعمت ہے تو اس کا شکر ادا نہ کرنا بھی غفلت ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کا ارشاد ہے کہ اگر ایمان پر خاتمہ چاہتے ہو تو ہمیشہ نعمتِ ایمان پر خدا کا شکر کرتے رہو؛ کیوں کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے  لئن شكرتم لأزيدنكم اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں نعمت کو بڑھاؤں گا، اسے زیادہ کروں گا ۔۔۔ تو جو شخص نعمتِ ایمان پر شکر ادا کرتا رہے گا اس کا ایمان کبھی زائل یا کم نہ ہوگا بلکہ دن بدن بڑھتار ہے گا ، پس یہ درد دستور العمل بنانے کے قابل ہے اگر اپنا ایمان دنیا سے سلامت لے جانا چاہتے ہو تو ایمان کا شکر کبھی نہ بھولو۔‘‘

(عنوان:نعمتِ اسلام پر شکر، ج:12، ص:202، ط:ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ)

باقی اس جملے کو جو اسکالرز غلط کہتے ہیں، تو اس کو ان کا غلط کہنا خود غلط اور بے بنیاد ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں