بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ کا نام لیے بغیر قسم کھانے سے قسم منعقد ہوجاتی ہے


سوال

اللہ  کانام لیےبغیرقسم کھانا کہ:"میں یہ فُلان کام نہیں کروں گی"،اس کاشرعی طورپرحکم کیا ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر قسم میں اللہ تعالی کا نام نہیں لیا، صرف یوں کہاتھا، کہ: "میں قسم کھاتی ہوں کہ فُلان کام نہیں کروں گی"تب بھی قسم منعقد ہوگی، کیوں کہ عرف میں اس سے اللہ تعالی کے نام کی قسم ہی مراد لی جاتی ہے،پھراگرقسم توڑدی(یعنی جس کام نہ کرنےکی قسم اُٹھائی تھی ،وہ کام کیا)توایسی صورت میں کفارہ لازم آئےگا،قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کیا جائے یا دس غریب محتاجوں کو ایک جوڑا کپڑوں کا دیا جائے یا ایک دن صبح، شام پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے، ان تینوں میں اختیار ہے، جس سےچاہے کفارہ ادا کرے اور اگر ان تینوں میں سے کسی ایک پر بھی قدرت نہ ہو تو تین دن لگاتار روزے رکھے۔

قرآن مجید میں ہے:

"لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰـكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَۚ-فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍؕ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍؕ-ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْؕ-وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(سورة المائدة:89)."

ترجمہ:"الله تعالیٰ تم سے مواخذہ نہیں فرماتے تمھاری قسموں میں لغو قسم پر لیکن مواخذہ اس پر فرماتے ہیں کہ تم قسموں کو مستحکم کردو ۔ سو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا اوسط درجہ کا جو اپنے گھر والوں کو کھانے کو دیا کرتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں یہ کفارہ ہے تمھاری قسموں کا جب کہ تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کا خیال رکھا کرو اسی طرح الله تعالیٰ تمھارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتے ہیں تاکہ تم شکر کرو۔"(بیان القرآن)

مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"(و) كذا (‌أقسم ‌وأحلف) بكسر اللام (وأشهد) بفتح الهمزة والهاء فإن هذه الألفاظ مستعملة في الحلف فجعل حلفا في الحال."

(كتاب الأيمان، فصل حروف القسم، ج:1، ص:545، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"واعلم أنه وقع في النهاية وتبعه في الدراية أن مجرد قول القائل ‌أقسم ‌وأحلف يوجب الكفارة من غير ذكر محلوف عليه."

(‌‌كتاب الأيمان، ج:3، ص:716، ط: سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله: واليمين بالله تعالى والرحمن والرحيم وجلاله وكبريائه وأقسم وأحلف وأشهد، ‌وإن ‌لم ‌يقل ‌بالله....وأما كونه حالفا بقوله أقسم، أو أحلف، أو أشهد، ‌وإن ‌لم ‌يقل ‌بالله فلأن هذه الألفاظ مستعملة في الحلف وهذه الصيغة للحال حقيقة وتستعمل للاستقبال بقرينة فجعل حالفا للحال."

(كتاب الأيمان، ج:4، ص:305، 307، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101827

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں