بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ کے کن صفاتی نام کے ساتھ عبد لگانا ضروری ہے ؟


سوال

1. اگر ہم کسی کو عبد الرحمن، عبدالرزاق,،عبد الغفار یا عبدالسبحان کے بجائے اکیلا رزاق، غفار، رحمان کہتے سنے تو یہ گناه صرف ان 2 لوگوں کے درمیان رہے گا یعنی جس نے پکارا اور جس نے سنا ،یا پھر سب کو ملے گا جس کے کان میں یہ الفاظ گئے۔

2. ایک لسٹ بنادیں  جس سے واضح  ہو جائے کن ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری ہے اور کن کے ساتھ نہیں، برائے مہربانی سب لکھ دے بغیر وغیره استعمال کیے جزاک اللہ ،الله آپ کو خدمات کا صلہ  دیں  آمین۔

جواب

  1. واضح رہے کہ اللہ تبارک وتعالٰی کے وہ صفاتی نام جو اللہ کے ساتھ خاص ہیں ،بندوں کے لیے اس کا استعمال  جائز نہیں البتہ اگر ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" لگانا ضروری ہے ؛لہذا اگر کوئی شخص ان ناموں کو "عبد" کی اضافت کے بغیر استعمال کرے تو اس طرح کرنا ناجائز اور گناہِ کبیرہ ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا البتہ جس کے کان میں  یہ لفظ پہنچ جائے اور اس کا ارادہ سننےکا نہ ہو تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا ۔
  2.  اللہ تعالی کے کن ناموں کے ساتھ  "عبد " لگاکر نام رکھنا  ضروری ہے اور کن کے ساتھ  نہیں ؟ ان کی تفصیل درج ذیل ہیں :
  • اللہ تبارک وتعالی کے وہ ذاتی یا صفاتی نام جس کے ساتھ " عبد ' لگانا ضروری ہے ،بغیر "عبد" کی اضافت کے بندوں کے لیے اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں اور وہ نام یہ ہیں: اللہ، الرحمن، الملك، القدوس، السلام، المھیمن، الجبار، المتکبر، الخالق، البارئ، المصور، الغفار، القھار، الرزاق، التواب، الوهاب، الخلاق، الفتاح، القیوم، الرب، المحیط، الغفور، الأحد، الصمد، الملیك، الحق، القادر، المحیی، الأول، الآخر، الباطن  وغیرہ۔
  • وہ اسماء جو اللہ کے صفات خاصہ میں سے نہیں ؛بلکہ وہ اسماء اللہ تعالی کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں ان کو صفات مشترکہ بھی کہا جاتا ہے اور ان کے متعلق یہ تفصیل ہے کہ اگر قرآن وحدیث ،تعامل ِ امت یا عرف ِ عام میں ان اسماء سے غیر اللہ کا نام رکھنا ثابت ہو تو ایسا نام رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں مثلا:عزیز، علی، کریم، رحیم، عظیم، رشید، کبیر، بدیع، کفیل، هادی، واسع، حکیم  وغیرہ ۔

اور جن صفات ِ مشترکہ سے غیر اللہ کا نام رکھنا قرآن وحدیث اور مسلمانوں کے تعامل سے ثابت نہ ہو تو ان صفات پر غیر اللہ کا نام رکھنے سے پرہیز لازم ہے اور اگر استعمال کرنا ہے تو لفظ "عبد" کی اضافت کے ساتھ اس کو استعمال کیا جائے کیوں کہ اسماء حسنی میں اصل یہ ہے کہ ان سے غیر اللہ کا نام نہ رکھا جائے ۔

(مستفاد از فتاوی عثمانی ،ج:1،ص:50،مکتبہ معارف القرآن )

اس کی تفصیل میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

" اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار " قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز اور  گناہِ کبیرہ ہے، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘

(ماخوذ از تفسیر معارف القرآن ،ج:۴4،ص:132،مکتبہ معارف القرآن )

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"وذكر غير واحد من العلماء ‌أن ‌هذه ‌الأسماء منها ما يرجع إلى صفة فعلية ومنها ما يرجع إلى صفة نفسية ومنها ما يرجع إلى صفة سلبية. ومنها ما اختلف في رجوعه إلى شيء مما ذكر وعدم رجوعه وهو الله والحق أنه اسم للذات وهو الذي إليه يرجع الأمر كله، ومن هنا ذهب الجل إلى أنه الاسم الأعظم، وتنقسم قسمة أخرى إلى ما لا يجوز إطلاقه على غيره سبحانه وتعالى كالله والرحمن وما يجوز كالرحيم والكريم وإلى ما يباح ذكره وحده كأكثرها وإلى ما لا يباح ذكره كذلك كالمميت والضار فإنه لا يقال: يا مميت يا ضار بل يقال: يا محيي يا مميت ويا نافع يا ضار، والذي أراه أنه لا حصر لأسمائه عزت أسماؤه في التسعة والتسعين۔۔۔۔۔۔۔"

(سورۃ الاعراف،ج:5،ص:115،دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌وجاز ‌التسمية ‌بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء كذا في السراجية

قوله ‌وجاز ‌التسمية ‌بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل"

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:6،ص:417،سعید)

تحفۃ المودود باحکام المولود میں ہے :

"ومما يمنع تسمية الإنسان به أسماء الرب تبارك وتعالى فلا يجوز التسمية بالأحد والصمد ولا بالخالق ولا بالرازق وكذلك سائر الأسماء المختصة بالرب تبارك وتعالى ولا تجوز تسمية الملوك بالقاهر والظاهر كما لا يجوز تسميتهم بالجبار والمتكبر والأول والآخر والباطن وعلام الغيوب۔۔۔۔۔وأما الأسماء التي تطلق عليه وعلى غيره كالسميع والبصير والرؤوف والرحيم فيجوز أن يخبر بمعانيها عن المخلوق ولا يجوز أن يتسمى بها على الإطلاق بحيث يطلق عليه كما يطلق على الرب تعالى."

(الباب الثامن فی ذکر تسمیتہہ واحکامہا۔۔۔۔،ص:125،دارالبیان)

فائدۃ جلیلۃ فی  قواعد الاسماء الحسنی میں ہے :

"الثالث عشر: ‌اختلف ‌النظار في الأسماء التي تطلق على الله وعلى العباد؛ كالحي والسميع والبصير والعليم والقدير والملك ونحوها فقالت طائفة من المتكلمين: هي حقيقةٌ في العبد مجازٌ في الرب وهذا قول غلاة الجهمية، وهو أخبث الأقوال وأشدها فسادًا.الثاني: مقابلُهُ، وهو أَنَّها حقيقةٌ في الرب مجازٌ في العبد، وهذا قول أبي العباس الناشي.الثالث: أَنَّها حقيقة فيهما، وهذا قول أهل السنة، وهو الصواب.واختلاف الحقيقتين فيهما لا يخرجها عن كونها3 حقيقة فيهما، وللرب تعالى منها ما يليق بجلاله، وللعبد منها ما يليق به  وليس هذا موضع التعرض لمأخذ هذه الأقوال وإبطال باطلها وتصحيح صحيحها، فإِنَّ الغرض الإشارةُ إلى أمورٍ ينبغي معرفتها في هذا الباب، ولو كان المقصود بسطها لاستدعت سفرين أو أكثر.

الرابع عشر: أن الاسم والصفة من هذا النوع له ثلاثُ اعتباراتٍ:

- اعتبارٌ من حيث هو مع قطع النظر عن تقييده بالرب تبارك وتعالى أو العبد.

- الاعتبار الثاني: اعتباره مضافا إلى الرب مختصًا به.

- الثالث: اعتباره مضافًا إلى العبد مقيدًا به.

1- فما لزم الاسم لذاته وحقيقته كان ثابتًا للرب والعبد وللرب منه ما يليق بكماله وللعبد منه ما يليق به. وهذا كاسم السميع الذي يلزمه إدراك المسموعات والبصير الذي يلزمه رؤية المبصرات، والعليم والقدير وسائر الأسماء، فإنَّ شرط صحة إطلاقها حصول معانيها وحقائقها للموصوف بها. فما لزم هذه الأسماء لذاتها فإثباته للرب تعالى لا محذور فيه بوجه، بل يثبت له1 على وجه لا يماثلُ2 فيه خَلْقَهُ ولا يشابهُهُم، فمن نفاه عنه لإطلاقه على المخلوق ألحد في أسمائه وجحد صفات كماله، ومن أثبته له على وجهٍ يماثل فيه خلقه فقد شبهه بخلقه، ومن شبه الله بخلقه فقد كفر، ومن أثبته له على وجهٍ لا يماثل فيه خلقه بل كما يليق بجلاله وعظمته فقد برئ من فرث التشبيه ودم التعطيل وهذا طريق أهل السنة.

2- وما لزم الصفةَ لإضافتها إلى العبد وجب نفيه عن الله، كما يلزمُ حياة العبد من النومِ والسِنةِ والحاجةِ إلى الغذاءِ ونحو ذلك، وكذلك ما يلزمُ إرادته من حركة نفسه في جلب ماينتفع به ودفع ما يتضرر به، وكذلك ما يلزمُ علوه من احتياجه إلى ما هو عالٍ عليه وكونه محمولاً به مفتقرًا إليه محاطًا به. كلُّ هذا يجب نفيه عن القدوس السلام تبارك وتعالى.

3- وما لزم صفة من جهة اختصاصهِ تعالى بها فإنَّه لا يَثْبُتُ للمخلوق بوجه كعلمه الذي يلزمه القِدَمُ والوجوبُ والإحاطةُ بكل معلومٍ، وقدرتهِ، وإرادتهِ، وسائر صفاته. فإنَّ ما يختصُ به منها لا يمكنُ إثباتُهُ للمخلوق.

فإذا أحطتَ بهذه القاعدة خُبرًا وعَقَلْتَها كما ينبغي خلصتَ من الآفتين اللتين هما أصل بلاءِ المتكلمين: آفةِ التعطيل وآفةِ التشبيه، فإنَّك إذا وفيت هذا المقامَ حقه من التصور أثبت لله الأسماء الحسنى والصفاتِ العلى حقيقةً فخصلت من التعطيل، ونفيت عنها خصائص المخلوقين ومشابهتهم فخلصت من التشبيه، فتدبر هذا الموضع واجعله آخيَّتَكَ1 التي ترجعُ إليها في هذا الباب والله الموفق للصواب."

(ص:32تا 36،غراس کویت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں