بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روایت ’’ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں جب میں ناراض ہوتا ہوں تو حکومت بے وقوفوں کو دیتا ہوں پیسہ بخیلوں کو دیتا ہوں اور بارش بے وقت کرتا ہوں، اور اللہ تعالٰی فرماتے ہیں جب میں راضی ہوتا ہوں حکومت نیک اور سمجھدار لوگوں کو دیتا ہوں پیسہ سخیوں کو دیتا ہوں اور بارش


سوال

حضرت موسی علیہ السلام نے کوہ طور کے مقام پر اللہ تعالٰی سے پوچھا : یا اللہ جب تو ناراض ہوتا ہے تو ہمیں پتا کیسے چلے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے اس وقت ناراض ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :جب میں ناراض ہوتا ہوں تو حکومت بے وقوفوں کو دیتا ہوں ،پیسہ بخیلوں کو دیتا ہوں اور بارش بے وقت کرتا ہوں۔ پھر حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے پوچھا: یا اللہ جب تو راضی ہوتا ہے پھر کیسے پتا چلے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے اس وقت راضی ہے۔اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: جب میں راضی ہوتا ہوں  توحکومت نیک اور سمجھدار لوگوں کو دیتا ہوں، پیسہ سخیوں کو دیتا ہوں اور بارش وقت پر کرتا ہوں۔

اس واقعے کی تحقیق درکار ہے کہ  کیا یہ واقعہ دینی کتابوں میں موجود ہے؟  رہنمائی کیجیے۔ 

جواب

سوال میں مذکور واقعہ امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفى: 458ھـ) نے  ان کی سند کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے،البتہ روایت کی رو سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کے حضرت موسي علیہ السلام یا حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق ہونے میں شک ہے(یعنی یا تو یہ حضرت موسي علیہ السلام کا قصہ ہے یا حضرت عیسي علیہ السلام کا ) ،روایت بمع سند ملاحظہ فرمائیے: 

" أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْحُسَيْنِيُّ، بِمَرْوَ، نا شِهَابُ بْنُ الْحَسَنِ الْعُكْبَرِيُّ، نا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ قُرَيْبٍ الْأَصْمَعِيُّ، نا مالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: حُدِّثْتُ: أَنَّ مُوسَى أَوْ عِيسَى عَلَيْهِمَا السَّلَامُ قَالَ: يَا رَبِّ، مَا عَلَامَةُ رِضَاكَ عَنْ خَلْقِكَ؟ فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: أَنْ أُنْزِلَ عَلَيْهِمُ الْغَيْثَ إِبَّانَ زَرْعِهِمْ - وَأَحْبِسَهُ إِبَّانَ حَصَادِهِمْ - وَأَجْعَلَ أُمُورَهُمْ إِلَى حُلَمَائِهِمْ، وَفَيْئَهُمْ فِي أَيْدِي سُمَحَائِهِمْ، قَالَ: يَا رَبِّ فَمَا عَلَامَةُ السَّخَطِ؟ قَالَ: أَنْ أُنْزِلَ عَلَيْهِمُ الْغَيْثَ إِبَّانَ حَصَادِهِمْ - وَأَحْبِسَهُ إِبَّانَ زَرْعِهِمْ - وَأَجْعَلَ أُمُورَهُمْ إِلَى سُفَهَائِهِمْ، وَفَيْئَهُمْ فِي أَيْدِي بُخَلَائِهِمْ. "

(شعب الإيمان، (9/ 492 و493) برقم (7007)، ط/ مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض)

نيز علامه سيوطي رحمه الله  (المتوفى: 911ھ) کی تصریح کے مطابق اس واقعہ کو خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفى: 463ھـ)  نے بھی اپنی کتاب ’’رُواۃ مالک‘‘ میں  ذکر کیا ہے۔

(جمع الجوامع (12/ 360) برقم (4788)، ط/ دار االكتب العلمية بيروت)  

بعد ازاں علامہ بیہقی وخطیب بغدادی رحمہما اللہ کے حوالہ سے اسے علامه متقي علي الهندی رحمہ اللہ (المتوفى: 975ھ) نے بھی’’کنز العمال‘‘ میں نقل فرمایا ہے ۔

(كنز العمال، كتاب الفراسة من قسم الأفعال، (11/ 103) برقم (30803)، ط/ مؤسسة الرسالة)

روایت میں مذکور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ’’حُدِّثْتُ: أَنَّ مُوسَى أَوْ عِيسَى عَلَيْهِمَا السَّلَامُ‘‘  سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اسرائلیات کے قبیل سے ہے ، اوران  روایات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی ایسی بات ہو جس کی تصدیق ہمیں قرآن و حدیث سے ملتی ہو تو ہم ایسی روایات کی تصدیق کریں گے اور ان روایات کا بیان کرنا جائز بھی ہوگا، اور جن میں ایسی باتیں ہوں جس کی تصدیق تو ہمیں قرآن و حدیث میں نہ ملتی ہو، لیکن وہ قرآن و حدیث (یعنی شریعت) کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکراتی بھی نہ ہوں تو ایسی روایات کا حکم یہ ہے کہ ہم نہ تو ان روایات کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب کریں گے، البتہ ان روایات کو بیان کرنے کی گنجائش ہے، اور جن روایات میں ایسی باتیں ہوں جو قرآن و حدیث کے مخالف ہوں تو  ہم ان کی تکذیب کریں گے، اور ایسی روایات کو بیان کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

مذکور روایت کا مضمون چونکہ مختلف احادیث وغیرہ میں بھی آیا ہے، لہذا   اسے بیان کرنا  جائز ہوگا، البتہ روایت میں چونکہ موسي علیہ السلام یا عیسي علیہ السلام میں سے کسی ایک نبی کی خاص تعیین نہیں ہے، تو احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طریق پر مذکورہ انبیاء عليهما السلام كي  جانب منسوب كر كےاسی طرح شک کے ساتھ ہی بیان کیا جائے ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101113

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں