بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ تعالی کےکسی حکم کو ظلم کہنےکاحکم


سوال

اگر کوئی شادی شدہ عورت یہ کہہ دے کہ مَردوں کو ایک سے زیادہ شادیوں کا حق عورتوں پرظلم ہے، مردوں کو ایسا حق کیوں ہے ؟اور ایک مرتبہ کہے کہ جماع کے بعد یہ غسل کیوں ہے؟ اگریہ غسل نہ ہوتا۔

اب اس عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ کی ہوئی شادی کا کیا حکم ہوگا ؟ 

جواب

واضح   رہے  کہ قرآن ِ مجید میں اللہ  تعالی نے اپنی  ذات سے صراحتًا  ظلم کی نفی کی ہے، جیسے کہ  سورۂ  نساء میں  ہے: 

"{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۚ}"

"بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہ کریں گے۔"

(سورۃ النساء، رقم الآیۃ:40، ترجمہ:بیان القرآن)

اور جس صفت کی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذات سے نفی کی ہے، اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا کفر ہے۔

نیز مَردوں کو شرائط کےساتھ ایک سےزائد شادیوں کی اجازت دینااورجنابت کےبعدغسل کاحکم دینایہ اللہ کی طرف سےہے،اوراللہ تعالی کےکسی حکم کو ظلم کہنااللہ تعالی کےظالم ہونےکو مستلزم ہے،لہٰذاصورتِ  مسئولہ  میں اگر مذکورہ شادی شدہ عورت نےاپنے ہوش وحواس میں اللہ تعالیٰ کی مذکورہ اجازت اور حکموں کوظلم کہاہےجوکہ (معاذ اللہ) اللہ تعالی کےظالم ہونےکومستلزم ہے،تو  وہ عورت  دائرۂ   اسلام سے خارج ہے،  اس  پر   لازم ہے کہ وہ تجدیدِ ایمان کرے اور صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے، اورتجدیدِ ایمان کےبعدتجدیدِ نکاح بھی لازم  ہے۔

"الموسوعة الفقهية" میں ہے:

"‌‌نسبة الظلم إلى الله سبحانه وأثرها في الردة:

13 - اتفق الفقهاء على أن نسبة الظلم إلى الله سبحانه وتعالى من موجبات الحكم بالردة فلو قال شخص لغيره: لا تترك الصلاة فإنالله تعالى يؤاخذك فقال: لو آخذني الله بها مع ما بي من المرض والشدة ظلمني، فإنه يكون مرتدا."

(المادة: ظلم، 175/29، ط: مطابع دار صفوة مصر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال أبو حفص (رحمه الله تعالى): من نسب الله تعالى إلى الجور فقد كفر، كذا في الفصول العمادية".

(مطلب في موجبات الكفر أنواع ... ، 259/2، ط: مكتبه رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وهل يكفر بقوله الله يعلم أو يعلم الله أنه فعل كذا أو لم يفعل كذا كاذبا؟ قال الزاهدي: الأكثر نعم.

(قوله: الأكثر نعم) لأنه نسب خلاف الواقع إلى علمه تعالى فيضمن نسبة الجهل إليه تعالى ."

(كتاب الإيمان،  ج:3، ص:719، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها: ما يتعلق بذات الله تعالى وصفاته وغير ذلك) يكفر إذا وصف الله تعالى بما لايليق به، أو سخر باسم من أسمائه، أو بأمر من أوامره، أو نكر وعده ووعيده، أو جعل له شريكاً، أو ولداً، أو زوجةً، أو نسبه إلى الجهل، أو العجز، أو النقص ويكفر بقوله: يجوز أن يفعل الله تعالى فعلاً لا حكمة فيه، ويكفر إن اعتقد أن الله تعالى يرضى بالكفر، كذا في البحر الرائق".

(مطلب في موجبات الكفر ... ، 258/2، ط: مكتبه رشيديه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144404100223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں