ایک عالمِ دین کا بیان آیا ہے کہ "ا گر اہلِ بیت سے محبت کا نام شیعہ ہونا ہے تو سن لو میں بھی شیعہ ہوں"۔ کیا یہ صحیح بیان دیا انہوں نے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ الفاظ امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب اشعار سے مستفاد ہیں، ان کے اشعار کے الفاظ یہ ہیں :
إن كان رفضًا حب آل محمد ... فليشهد الثقلان أني رافضي
ترجمہ : اگر آلِ محمد (ﷺ) سے محبت کرنا رفض (شیعہ ہونا) ہے تو انسان اور جنات گواہ رہیں کہ میں رافضی (شیعہ) ہوں۔
لہذا مذکورہ الفاظ صحیح المعنی ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ تشیع کے اہلِ بیت کی محبت میں غلو کرنے کی وجہ سے اہلِ سنت الجماعت ان کے ردِّ عمل کے نتیجے میں اہلِ بیت کی محبت میں کوتاہی کریں، بلکہ دینی نسبت و مرتبہ اور نبی کریمﷺ کی رشتے داری کی خصوصیت اور فضیلت کے لحاظ سے نبی کریم ﷺ کے اہلِ بیت سے محبت اور دل سے ان کی تعظیم کرنا بھی ایمان کا حصہ سمجھیں۔
تاہم واضح ہو کہ 'اہلِ بیت' کے معاملے میں لوگوں کے تین طبقے ہیں :
1 : ان کی محبت میں غلو کرنے والے۔
2 : ان کی محبت میں معتدل۔
3 : ان کے تعلق میں کوتاہی کرنے والے۔
اگر مذکورہ عالمِ دین سمیت کسی بھی عالمِ دین کے مخاطب یا معتقد دوسرے طبقے یا تیسرے طبقے کے لوگ ہوں، تو ان کے سامنے ایسے الفاظ کہنا درست ہے، البتہ اگر مخاطب یا معتقد پہلے طبقے کے لوگ ہوں تو وہ ان الفاظ کو اپنے غیر شرعی اور غلو آمیز مسلک کی اشاعت و تائید کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں؛ لہذا کسی بھی عالمِ دین کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے اور مخاطبین و معتقدین کی نوعیت دیکھتے ہوئے ایسے الفاظ کہنے کا انتخاب کرنا چاہیے۔
الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (1 / 91):
"(إن كان رفضًا حب آل محمد ... فليشهد الثقلان أني رافضي)
قال أبو عمر كان ينسب هذا الشعر إلى الشافعي."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144301200191
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن