بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’مجھے آزاد کر‘‘ کے جواب میں شوہر کا کہنا ’’ہاں جا‘‘ کا حکم


سوال

ساڑھے تین برس سے میرے شوہر کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے،اس دوران میرا اس سے جھگڑا ہوا میں نے اسکو بولا مجھے آزاد کر،میرے شوہر نے مجھے دروازے کی طرف دھکیلا ،اور بولاہاں جا، مگر میں نہیں گئی،پھر اس کے بعد بھی کوئی تعلق نہیں بنا اور آٹھ مہینے بات چیت بند رہی ، اس دوران میں اپنا سارا سامان اپنی ماں کے گھر لے گئی،میں نے جب بھی بات کرنے کی کوشش کی ،تو ہر بار غصے میں بولا تیرا میرا واسطہ نہیں ہے،تو جا یہاں سے،آٹھ سے دس مرتبہ اس نے مجھے غصے میں بولا کہ تیرا میرا واسطہ نہیں ہے ،تو جا اور ہر بار دروازے کی طرف اشارہ کیا، واضح رہے کہ میرا شوہر گھر میں کالے علم کے منتر پڑھتا ہے ،اور کوئی بات کرتی تھی تو ناچ کر دکھاتا تھا ، اس کے ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی ہے یانہیں ؟میں مسلمان عورت ہوں قرآن وسنت کی روشنی میں جواب چاہئے ،میں بیمار ہوں یاکسی تکلیف میں ہوں اس نے کبھی نہیں پوچھا، اپنے حقوق سے غافل ہے۔ 

جواب

 واضح رہے کہ لفظ " آزاد" ہمارے عرف میں طلاق کے لئے استعمال ہوتا ہے ، لہذا جب سائلہ نے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آزاد کر،تو شوہر نے اس کے جواب میں کہاکہ "ہاں جا" تو اس سے سائلہ پر  ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ، نکاح ختم ہوگیا اب رجوع جائز نہیں ،آٹھ مہینے کے عرصہ میں عدت مکمل ہونے کی وجہ سے سائلہ دوسری جگہ  نکاح کرسکتی ہے  ،تاہم میاں بیوی دونوں  اگر ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو از سر نو مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا لازم ہے،اور اس صورت میں آئندہ شوہر کے پاس صرف دوطلاق کا حق باقی رہے گا،نیز اس کےبعد شوہر کا یہ کہنے سے کہ” تیرا میرا واسطہ نہیں “مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية."

(کتاب الطلاق:باب الصریح:ج:2،ص:450،ط:رشیدیہ)

البحر الرائق میں ہے:

"والأوجه عندي أن يقع بائنا كما في فتح القدير، وفي المعراج، والأصل الذي عليه الفتوى في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيه لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع بلا نية إذا أضيف إلى المرأة مثل زن رها كردم في عرف أهل خراسان، والعراق بهيم لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان بالفارسية يستعمل في الطلاق وغيره فهو من كنايات الفارسية فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام."

(ج:3،ص:521،ط:دارالکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال: لم يبق بيني وبينك شيء، ونوى به الطلاق لايقع. وفي الفتاوى: لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع، كذا في العتابية".

(کتاب الطلاق: باب في ایقاع الطلاق:ج:1،ص :412،ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں