بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

الفاظِ ہبہ سے وقف کا حکم


سوال

میری امی کے تین بھائی ہیں،  جس میں سے ایک انتقال فرما گیا، جس کی پراپرٹی بھائی اور بہن کو اسلامک رول کے حساب سے مل گئے،  پھر اس پراپرٹی کو میرے امی اور ایک چھوٹے بھائی نے مدرسے کے نام سے ہبہ کر دیا،  مسجد کے پاس بالکل قریب میں زمین سیل ہو رہی ہے، مسجد صدر اور سیکرٹری کا کہنا ہے کہ آپ لوگ نے جو زمین مدرسے کے لئے ہبہ کی ہوئی ہے وہ فروخت کرکے اس کے پیسے ہمیں دے دیجئے تاکہ ہم لوگ مسجد کے قریب کی زمین خرید لے، کچھ دن پہلے چھوٹے والے بھائی کا بھی انتقال ہو گیا ہے، تو ہبہ کی ہوئی زمین کے بدلے مسجد کے پاس والی زمین دے سکتے ہیں یا نہیں۔

یعنی اس ہبہ کی ہوئی زمین کو فروخت کر کے پیسے مسجد کے قریب والی زمین کے لیے دے سکتے ہیں یا نہیں دے سکتے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں الفاظِ ہبہ وقف کے معنیٰ میں صریح نہیں ہے، لہذا  جب مذکورہ بہن بھائی نے اپنے حصے کی زمین  مدرسہ کے  لیے ہبہ کی تھی   تو اگر ان دونوں کا مقصد مذکورہ زمین کو وقف کرنا تھا  اور عملاً انہوں نے مدرسے  کے  لیے حوالے  بھی کی تو اب وہ زمین مدرسہ ہی کے  لیے وقف ہوگئی، لہذا اس زمین کو فروخت کرنا یا دوسرے مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے، نیز جب دینے والے بھائی کا انتقال ہوگیا تو اب بھائی کے ورثاء کو اس وقف میں تبدیلی کا شرعاً اختیار نہیں رہا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"هي تمليك العين بلا عوض".

(کتاب الہبۃ، ج:7، ص:284، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو قال: جعلت حجرتي هذه لدهن سراج المسجد ولم يزد على ذلك قال الفقيه أبو جعفر: تصير الحجرة وقفا على المسجد إذا سلمها إلى المتولي وعليه الفتوى كذا في فتاوى قاضي خان".

(فصل فی الالفاظ التی یتم بھا الہبۃ، ج:2، ص:359، ط:مکتبہ رشیدیہ)

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"كما يصح الوقف باللفظ فإنه يقوم مقام اللفظ ما يأتي :

ج - الفعل : كمن يبني مسجدا أو رباطا أو مدرسة ويخلي بين الناس وبين ما أعده من ذلك ، فإنه يصير وقفا ولو لم يتلفظ ، وكمن يجعل أرضه مقبرة ويأذن للناس إذنا عاما بالدفن فيها ، وهذا عند الحنفية ".

(وقف، ما يقوم مقام اللفظ ، ج:44، ص:116، ط:امیرحمزہ کتب خانہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100949

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں