بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

الفاظ طلاق کی وضاحت سے طلاق کا حکم


سوال

میں اپنی بیوی کو ایک طلاق کافی عرصہ پہلے دے چکا ہوں اورا اس کے بعد رجوع بھی ہوچکا تھا ،گزشتہ دنوں لڑائی کے دوران میں نے طلاق دینے کا ارادہ کیا اور بیوی سے کہا " میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں "، اب مجھے خیال آیا کہ ان الفاظ سے پتا نہیں بیوی سمجھی یا نہیں سمجھی ،لہذا میں نے اپنے الفاظ کی وضاحت کے لیے واپس بیوی سے کہا کہ میں نےتمہیں طلاق دی۔

اب سوال یہ ہے کہ طلاق ایک ہی واقع ہوئی یا دو؟

جواب

صورت مسئولہ میں بیوی پر دو طلاق ِرجعی واقع ہوچکی ہیں،اگر شوہر عدت کے اندر اندر رجوع کرے گاتو نکاح برقرار رہے گاورنہ عدت گزر جانے کے بعدنکاح باقی نہیں رہے گااور بیوی کو دوسری جگہ نکاح کرنے کی اجازت ہوگی،نیز سابقہ شوہرکے ساتھ دوبارہ رہنا چاہتی ہو تو دونوں کی رضا مندی سے تجدید نکاح لازم ہوگااور تجدید کے بعد شوہر صرف ایک طلاق کا مالک ہوگا۔

بحر الرائق میں ہے:

"والحاصل أن قولهم الصريح لا يحتاج إلى النية إنما هو في القضاء أما في الديانة فمحتاج إليها لكن وقوعه في القضاء بلا نية إنما هو بشرط أن يقصدها بالخطاب بدليل ما قالوا لو كرر مسائل الطلاق بحضرة زوجته ويقول أنت طالق ولا ينوي لا تطلق، وفي متعلم يكتب ناقلا من كتاب رجل قال ثم يقف ويكتب: امرأتي طالق وكلما كتب قرن الكتابة باللفظ بقصد الحكاية لا يقع عليه وما في القنية: امرأة كتبت أنت طالق ثم قالت لزوجها: اقرأ علي فقرأ لا تطلق اه."

البحر الرائق: (کتاب الطلاق ،ج:3، ص:278، ط: دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال لامرأته أنت طالق فقال له رجل ما قلت فقال طلقتها أو قال قلت هي طالق فهي واحدة في القضاء كذا في البدائع."

الفتاوی الھندیۃ: (الفصل الاول فی الطلاق الصریح، ج:1، ص:355،   ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"لو أراد به الخبر عن الماضي كذبأ لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاءً أيضاً."

(رد المحتار على الدرالمختار، كتاب الطلاق، مطلب في المسائل التي تصح مع الإكراه، ج:4، ص:443، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں