بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

علیحدگی کے بعد بچیوں کا نان ونفقہ کس پر لازم ہے اور پرورش کا حق کس کو حاصل ہے؟


سوال

ہم میاں بیوی کےدرمیان مؤرخہ 13 مارچ کوتین طلاق کامعاملہ ہوجانےکےبعدعلیحدگی ہوگئی تھی،علیحدگی کےبعدہماری دونابالغ بچیاں(ایک کی عمرچارسال ہےاوردوسرےکی عمردوسال سات ماہ ہے) میر ی  پرورش میں ہی تھیں اوربچیوں کی پرورش کےبارےمیں ہمارےجرگےبھی چل رہےتھے،اس دوران سسرال والوں نےکورٹ میں میرےخلاف کیس کرلیا،کچھ ہی دنوں بعدپولیس والوں نے آکر بچے مچھ سےلے لیے،اوربچےسسرال والوں کےحوالےکردیے،پھر جرگہ ہوا،اورانہوں نےیہ طےکیاکہ۔۔۔

بچیوں کانان و نفقہ کاذمہ دارمیں ہوں،اوراسی صورت میں ہرماہ ۔/1800 روپےدینےہوں گے،اوریہ بھی طےکیاکہ بچیوں سےملنےکےلیےپندرہ دن کےبعدصرف ایک دن کا موقع ملے گا،اب میراسوال یہ ہےکہ:

1۔جرگہ والوں کانان و نفقہ کےذمہ دارمجھے ٹھہرانادرست ہےیانہیں؟نیزمذکورہ صورت میں بچیوں کی پرورش کاحق دارکون ہے؟

2۔بچیوں سےملنےکےلیےپندرہ دن بعدصرف ایک دن کاموقع دیناکیساہے؟

3۔ شادی کےوقت بیوی کےساتھ جوجہیزکاسامان آیاتھا،اس سامان کی قیمت اداکرنےکافیصلہ کیا،ان کااس طرح مانگنادرست ہےیانہیں؟

4۔ کورٹ میں انہوں نےجوکیس دائرکیاہےوہ ختم کرواتےہوئےمجھےاس کاخرچہ اداکرنےکافیصلہ دیا،آیایہ  شرعاًدرست ہے؟

جواب

1۔صورتِ  مسئولہ میں سسرال والوں کاجرگےکےفیصلہ کےمطابق سائل کونابالغ بچیوں کےنان ونفقہ کاذمہ دارٹہرانادرست ہے،اوربچیوں کی جب تک شادی نہیں ہوجاتی اس وقت تک ان کےنان ونفقہ اپنی حیثیت کےمطابق  ادا کرنا سائل پرلازم ہے،نیزجہاں تک بچیوں کی پرورش کےبارےمیں سوال ہےتواس کاجواب یہ ہےکہ علیحدگی کےبعد نوسال کی عمر تک شرعاً  بچیوں کی پرورش کا حق  ماں کوحاصل ہو گا، اس کے بعد   سائل کوحق ہوگاکہ اپنی اولادکواپنےپاس بلالےاوران کی تعلیم وتربیت کرے۔

2۔بچےجب ماں کی پرورش میں ہوں تووالدکوہفتہ میں ایک دفعہ اپنےبچوں سےملنےکاحق شریعت نےدیاہے،لہذاجرگہ والوں کااس کےخلاف فیصلہ دینااورسائل کی مرضی کےخلاف ہفتہ کےبجائےپندرہ دن میں ملنےکی اجازت دینا درست طریقہ نہیں۔

3۔ جہیز   میں جو کچھ شادی کےوقت بیوی لے کر آئی تھی  وہ بیوی کی ہی ملکیت ہے،اورساتھ رہتےوقت مذکورہ سامان میں سےجوکچھ خراب ہواہےاس کےضمان توسائل پرلازم نہیں،البتہ علیحدہ ہوتےوقت سائل کےپاس مذکورہ جہیزکاسامان میں سےجوکچھ رہ گیاہےبعینہ وہی سامان لوٹادیناضروری ہوگا،اوراگراس میں سےکچھ ضائع کیاتواس کاضمان اداکرناہوگااوروہ یہی موجودمالیت کےحساب سےنہ کہ نئی قیمت پر۔

4۔ جرگہ والوں کاسائل پرکورٹ کاخرچہ اداکرنےکافیصلہ کرنادرست نہیں،بلکہ کورٹ کاخرچہ کیس دائرکرنے والوں پرہی لازم ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان".

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1 / ص: 563، ط: رشيدية)

وفيه ايضاّ:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة".

(الفتاوى الهندية، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج: 1 / ص: 560، ط: رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب  (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى   (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد، زيلعي".

(ردالمحتار،كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3 / ص:566 ،567، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع) ؛ لأنه إذا استغنى ‌يحتاج ‌إلى ‌تأديب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقهم والأب أقدر على التأديب والتعنيف.........

و عن محمد أنها تدفع إلى الأب إذا بلغت حد الشهوة لتحقق الحاجة إلى الصيانة قال في النقاية: و هو المعتبر لفساد الزمان."

(البحرالرائق شرح كنزالدقائق، كتاب الطلاق، باب الحضانة،ج: 4 / ص: 184، ط: دارالكتاب الاسلامي) 

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي".

(کتاب الطلاق، باب فی الحضانة، ج:1 / ص:543، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعهده. اهـ".

(ردالمحتار، کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3 /ص: 571، ط: سعيد)

وفيه ايضاّ:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها".

(ردالمحتار، كتاب النكاح، باب المهر، ج: 3 / ص: 158، ط: سعید)     

فتاوی   عالمگیریہ میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية".

(الفتاوي الهندية،الباب السابع في المهر، الفصل السادس عشر في جهاز البنت،ج: 1 / 327 ط: رشیدية)

وفيه ايضاً:

"وعلى هذا الصحيفة التي يكتب فيها دعوى المدعين وشهادتهم إن رأى القاضي أن يطلب ذلك من المدعي فله ذلك".

(الفتاوي الهندية، كتاب أدب القاضي، الباب التاسع، ج: 3 / ص: 330، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308102175

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں