بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

الکحل ڈی نیٹ کے استعمال کا حکم


سوال

کیا ایسا پرفیوم لگا کر نماز ہو سکتی ہے  جس میں  الکحل ڈی نیٹ  (sd alcohol 39-c)  شامل ہو؟

جواب

"الکحل  ڈی نیٹ" الکحل ہی کی ایک قسم ہے جس میں کچھ ایڈیٹوز (additives) ملائے جاتے ہیں؛  لہذا اس کا حکم وہی ہوگا جو الکحل کا ہے۔حکم مندرجہ  ذیل ہے:

واضح رہے  کہ جو الکحل ڈی نیٹ   انگور ،کھجور یا کشمش سے کشیدہ  نہیں ہو تو وہ پاک ہوتا ہے اور اس کا استعمال جائز ہے اور جس پرفیوم میں یہ الکحل ہو  اس کو لگا کر نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔ اور جو الکحل ڈی نیٹ  انگور ،کھجور یا کشمش سے کشید کر کے  بنایا گیا ہو وہ  نجاستِ غلیظہ ہے اور اس کا لگانا جائز نہیں ہے اور جس پرفیوم میں یہ الکحل ملایا گیا ہو اس کو لگا کر نماز پڑھنے  میں تفصیل یہ ہے کہ اگر  ایک درہم یا اس سے زیادہ کی مقدار پرفیوم کپڑوں پر لگایا ہے  تو  نماز ادا نہیں ہوگی اور اگر ایک درہم سے کم  مقدار ہے تو کراہت کے ساتھ نماز ادا ہوجائے گی۔

مارکیٹ میں عام طور پر جو پرفیوم ملتے ہیں وہ انگور، کھجور اور کشمش سے کشید شدہ الکحل سے نہیں بنے ہوئے ہوتے؛ لہذا ان کا استعمال جائز ہے، اور جہاں نجس الکحل ملنے کے شک کی کوئی بنیاد ہو تو اجتناب کرنا چاہیے۔

تکملہ فتح الملھم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي.

و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لا يحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبة مع المواد الأخري، ولا يحكم بنجاستها أخذا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لا تتخذ من العنب او التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع".

(كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة، ٣/ ٦٠٨، ط: مكتبة دار العلوم)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں