بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

الکحل ڈالی گئی دوائی کے استعمال کا حکم


سوال

آج کل مارکیٹ میں ایک دانت صاف کرنے کے لیے ایک دوائی مل رہی ہے، جس کا نام dazzlingwhiteہے، لیکن اس میں شراب یعنی الکوحل کی آمیزش ہے ۔براہ کرم اس بارے وضاحت فرما دیں کیا اس کو استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب

الکحل کی متعدد قسمیں ہیں:

(1) ایک وہ جو منقیٰ، انگور،کشمش یا کھجور کی شراب سےحاصل کی گئی ہو،  یہ بالاتفاق ناپاک  وحرام ہے، اس کا استعمال اور اس کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔

(2) دوسری  وہ جو مذکورہ  بالا اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً جو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کی گئی ہو، اس کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت جائز ہے بشر ط یہ کہ نشہ آور نہ ہو۔

(3)آج کل الکحل کی ایک تیسری قسم بھی ہے، یعنی وہ کیمیکل سے بنایا جاتا ہے، اس کا شراب وغیرہ سے تعلق نہیں ہے۔

عام طور پر ادویات ، پرفیوم اور دیگر مرکبات  میں جو الکحل استعمال ہوتی ہے وہ مذکورہ  اشیاء اربعہ یعنی  انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے،یا کیمیکل سے بنایا جاتا ہے، لہذا  کسی چیز  کے بارے میں جب تک  تحقیق سے ثابت  نہ ہوجائے کہ اس  میں  پہلی قسم (منقیٰ، انگور،کشمش یا کھجور کی شراب )سے حاصل شدہ الکحل ہے، اس وقت تک اس کے استعمال کو  ناجائز اور حرام نہیں کہہ سکتے۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ دوائی میں الکحل کی پہلی قسم اگر ڈالی جاتی ہے تو اس کا استعمال کرنا اور اس کی خرید وفروخت کرنا شرعاً جائز نہیں اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور قسم کی الکحل ڈالی جاتی ہے تو اس کا استعمال کرنا شرعا ً جائز ہوگا ۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع".

(کتاب الاشربۃ ،حکم الکحول المسکرۃ،ج:3،ص:408،دارالعلوم)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144412100413

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں