بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

الکحل والی فیس پراڈکٹس (face products) استعمال کرنے کا حکم


سوال

اگر چہرے پر استعمال کی جانے والی مصنوعات میں تھوڑا سا الکحل شامل ہو، تو کیا کوئی اسے استعمال کرسکتا ہے؟

 

جواب

واضح رہے کہ الکحل کی تین قسمیں ہیں:

(1) ایک وہ الکحل جو منقیٰ، انگور،کشمش یا کھجور  سےحاصل کی گئی ہو،  یہ بالاتفاق ناپاک  وحرام ہے، اور اس کا داخلی وخارجی استعمال اور اس کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔

(2) دوسری  وہ الکحل جو مذکورہ  بالا اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً جَو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کی گئی ہو۔

(3) تیسری قسم وہ الکحل ہے جو کیمیکل سے بنتا ہے،آخری دونوں قسموں کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت جائز ہے بشر ط یہ کہ نشہ آور نہ ہواور یہ پاک ہے ۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر چہرے پر استعمال کی جانے والی مصنوعات (face products)  میں پہلی قسم کی الکحل شامل ہو جوکہ حرام ہے، تو اس صورت میں ایسی مصنوعات کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اور اگر ان مصنوعات میں دوسری اور تیسری قسم کی الکحل شامل ہوں ، تو ایسی مصنوعات کا خارجی استعمال جائز ہوگا۔ 

البتہ عام طور پر فیس واش،   باڈی اسپرے اور پرفیوم وغیرہ میں جو الکحل استعمال ہوتی ہے وہ عام طور پر  انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے، لہذا  کسی چیز  کے بارے میں جب تک  تحقیق سے ثابت  نہ ہوجائے کہ اس  میں  پہلی قسم (منقیٰ، انگور، یا کھجور کی شراب )سے حاصل شدہ الکحل ہے ، اس وقت تک اس کے استعمال کو  ناجائز اور حرام نہیں کہا جائے گا، تاہم اگر احتیاط پر عمل کرتے ہوئے اس سے بھی اجتناب کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع."

(كتاب الأشربة، حکم الکحول المسکرة، ٣/ ٥٠٦، ط: دارالعلوم كراتشي)

وفيه أيضاً:

"وإنما نبهت علی هذا لأن الکحول المسکرة الیوم صارت تستعمل في معظم الأدوية ولأغراض کیمیاوية أخری ولاتستغنی عنها کثیر من الصناعات الحدیثة، وقد عمت بها البلوی واشتدت إليها الحاجة، والحکم فيها علی قول أبي حنیفة سهل؛ لأنها إن لم تکن مصنوعةً من النئي من ماء العنب فلا یحرم بیعها عنده، والذي یظهر لي أن معظم هذه الکحول لاتصنع من العنب، بل تصنع من غیرها، وراجعت له دائرة  المعارف البریطانیة المطبوعة 1950م (1/544) فوجدت فیها جدولاً للمواد التي تصنع منها هذه الکحول، فذکر في جملتها العسل، والدبس، والحب، والشعیر، والجودار،وعصیرأناناس (التفاح الصوبری)، والسلفات، والکبریتات، ولم یذکر فیه العنب والتمر، فالحاصل أن هذه الکحول لو لم تکن مصنوعةً من العنب والتمر فبیعها للأغراض الکیمیاویة جائز باتفاق بین أبي حنیفة وصاحبیه، وإن کانت مصنوعةً من التمر أو من المطبوخ من عصیر العنب فکذلک عند أبي حنیفة، خلافاً لصاحبیه، ولو کانت مصنوعةً من العنب النئي فبیعها حرام عندهم جمیعاً، والظاهر أن معظم الکحول لا تصنع من عنب ولا تمر، فینبغي أن یجوز بیعها لأغراض مشروعة في قول علماء الحنفیة جمیعاً."

(كتاب الأشربة، حکم الکحول المسکرة، ١/ ٥٥١، ط: دارالعلوم كراتشي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌الأصل ‌في ‌الأشياء ‌الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لا يلزم منه تحريمه على كل أحد، فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي، وليس الاحتياط في الافتراء على الله تعالى بإثبات الحرمة أو الكراهة اللذين لا بد لهما من دليل بل في القول بالإباحة التي هي الأصل."

(كتاب الأشربة، ٦/ ٤٥٩، ط: سعيد)

مزید تفصیل کے لئے درج ذیل  فتویٰ ملاحظہ فرمائیں۔

الکحل کی شرعی حیثیت

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں