بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اعلانیہ گناہ کی معافی ہے یا نہیں؟


سوال

1. میری زندگی میں کچھ ایسے گناہ ہیں جوکہ کھلم کھلا کیے ہیں غفلت میں،جیسے بھری محفل میں سب کےسامنے کِسی کو گالی دینا کِسی کی بُرائی کرنا اور بھی ایسے گناہ جو ہوئےہیں ،اب جب کہ صحیح سمجھ آیا ہے تو توبہ کرنا چاہتاہوں آپ مجھےاِس حدیثِ کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بتائیے کہ سچی توبہ سے کھلم کھلا گناہ معاف ہو جائیں گے یا نہیں؟ اور میرے  شک و شبہ کو ختم کیجئے!

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا: میری ساری امت کو معاف کیا جائے گا، سوائے گناہوں کو اعلانیہ اور کھلم کھلا کرنے والوں کے، اور یہ بھی اعلانیہ گناہ ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے، حالانکہ اللہ تعالی نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے، مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی، تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔‘‘

2.  آپ ہمیں یہ بتائیے کی کیا توبہ تائب ہونے کے بعد بھی معاف نہیں ہوگا؟

3.  اور کیا سچی توبہ کے بعد ہم بالکل گناہ سے پاک صاف ہو جائیں گے  اور میرا فسق وفجور ختم ہو جائے گا نا؟

جواب

واضح رہے کہ گناہوں سے معافی کے لیے سچی توبہ ضروری ہے،  جس کے تین رکن ہیں:

اول اپنے کیے پر ندامت اور شرم ساری، حدیث میں ارشاد ہے: "إنما التوبة الندم"  ”یعنی توبہ نام ہی ندامت کا ہے“۔

 دوسرا رکن توبہ کا یہ ہے کہ جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ  اس سے باز رہنے کا پختہ عزم و ارادہ کرے۔

تیسرا رکن یہ ہے کہ تلافی مافات کی فکر کرے، یعنی جو گناہ سر زد ہو چکا ہے اس کا جتنا تدارک اس کے قبضہ میں ہے اس کو پورا کرے، مثلاً نماز روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا کرے فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور و فکر سے کام لے کر تخمینہ متعین کرے، پھر ان کی قضا  کرنے کا پورا اہتمام کرے، بیک وقت نہیں کر سکتا تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاءِ عمری کی پڑھ لیا کرے، ایسے ہی متفرق اوقات میں روزوں کی قضا  کا اہتمام کرے، فرض زکاۃ ادا نہیں کی تو گزشتہ زمانہ کی زکاۃ بھی یک مشت یا تدریجاً ادا کرے، کسی انسان کا حق لے لیا ہے تو اس کو واپس کرے، کسی کو تکلیف پہنچائی ہے(مثلاً گالی دی ہے) تو اس سے معافی طلب کرے،  بندے کا حق اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوسکتا،  حقوق العباد سے متعلق گناہوں سے توبہ کی تکمیل کے لیے یہ ضروری شرط ہے، تاہم اگر وہ بندہ انتقال کرچکا ہے یا اس سے ملاقات ممکن نہیں تو اللہ تعالی سے معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ اس کے حق میں مغفرت اور بلندئ درجات کی دعا کرے۔

لیکن اگر اپنے کیے پر ندامت نہ ہو، یا ندامت تو ہو مگر آئندہ کے لیے اس گناہ کو ترک نہ کرے، تو یہ توبہ نہیں ہے، گوہزار مرتبہ زبان سے توبہ توبہ کہا کرے۔

(مستفاد مع تغییر از معارف القرآن 2 /342،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

 لہٰذا جس شخص سےگناہ سرزد ہوگیا ہو (اعلانیہ ہوا ہو یا پوشیدہ طور پر)  اگر  وہ ان شرائط کے ساتھ توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ گناہوں کو معاف فرمائیں گے، اب اسے چاہیے کہ آئندہ ان گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرے، اور کسی متبعِ سنت اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرے اور جتنا ہوسکے اپنی نشست وبرخاست نیک لوگوں کے ساتھ رکھے، عبادات و طاعات میں اہتمام کے ساتھ مشغول رہے، حسبِ توفیق صدقہ بھی ادا کرتارہے۔

دین اسلام میں مایوسی بالکل نہیں ہے، انسان خطا کا پتلا ہے، گناہ انسان کی فطرت میں داخل ہے، لیکن بہترین ہے وہ شخص جو گناہ کرکے اس پر قائم نہ رہے، بلکہ فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’ہر بنی آدم (انسان) بہت زیادہ خطا کار ہے، اور (لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک) بہترین خطاکار وہ ہیں جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہوں۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

گناہ پر پشیمانی حیاتِ ایمانی کی علامت ہے، اور توبہ کی اولین شرط یہی ندامت و پشیمانی ہے، حدیث شریف میں ندامت کو ہی توبہ کہا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص اسی ندامت کے ساتھ گناہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی توبہ قبول فرما کر اس  کو معاف فرما دیتے ہیں۔ بلکہ توبہ کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں آپ سے جو گناہ ہوئے ہیں مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق ان سے توبہ کریں اور ہرگز مایوسی کا شکار نہ ہوں باقی رہی سوال میں ذکر کردہ  حدیث تو اس کے بارے میں شارحینِ حدیث نے لکھا ہے کہ  اس حدیث میں اپنے گناہوں کی تشہیر کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے اور یہ امر واضح کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے گناہوں کی تشہیر کرتا ہے تو اس کی معافی بھی مشکل ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اس تشہیر کے ذریعے گویا دوسروں کو گناہ کی دعوت دیتا ہے جوکہ گناہ پر گناہ ہے اور پچھلے گناہ سے بدتر ہے، اگر اس حالت پر قائم رہے تو بالآخر ایسے شخص کا دل سخت ہوجاتا ہے اور توبہ کی توفیق سلب ہوجاتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر ہی مرجاتا ہے، اس وجہ سے ایسے شخص کی معافی مشکل ہوجاتی ہے، البتہ اگر کوئی اپنے گناہوں کی تشہیر نہیں کرتاتو اللہ تعالی کی رحمتِ کاملہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ  آخرت میں ایسے شخص  کے ساتھ ستّاری (پردہ پوشی اور عفو و درگزر) کا معاملہ فرمائیں گے۔

خلاصہ یہ ہے کہ گناہ ہوجانے کے بعد اس کی تلافی کرنے سے بخشش ہوجاتی ہے اور اگر توبہ کرنے والا اپنی توبہ پر قائم رہے تو اس کا فسق بھی ختم ہوجاتا ہے۔

حدیث شریف ملاحظہ ہو:

"عن سالم بن عبد الله، قال: سمعت أبا هريرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:  كل أمتي معافى إلا ‌المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا، ثم يصبح وقد ستره الله عليه، فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه."

(صحيح البخاري،كتاب الأدب، باب سترالمؤمن على نفسه،8/ 20 ،ط: السلطانية)

اس کی تشریح میں  علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"قال بن بطال: في الجهر بالمعصية استخفاف بحق الله ورسوله وبصالحي المؤمنين وفيه ضرب من العناد لهم وفي الستر بها السلامة من الاستخفاف لأن المعاصي تذل أهلها ومن إقامة الحد عليه إن كان فيه حد ومن التعزير إن لم يوجب حدا وإذا تمحض حق الله فهو أكرم الأكرمين ورحمته سبقت غضبه فلذلك إذا ستره في الدنيا لم يفضحه في الآخرة والذي يجاهر يفوته جميع ذلك وبهذا يعرف موقع إيراد حديث النجوى عقب حديث الباب وقد استشكلت مطابقته للترجمة من جهة أنها معقودة لستر المؤمن على نفسه والذي في الحديث ستر الله على المؤمن والجواب أن الحديث مصرح بذم من جاهر بالمعصية فيستلزم مدح من يستتر وأيضا فإن ستر الله مستلزم لستر المؤمن على نفسه فمن قصد إظهار المعصية والمجاهرة بها أغضب ربه فلم يستره ومن قصد التستر بها حياء من ربه ومن الناس من الله عليه بستره إياه."

(فتح الباري لابن حجر: 10/ 487،ط، دارالمعرفة، بيروت)

تفسير ابن كثير  ميں هے:

"قال الحافظ أبو بكر البزار في مسنده: حدثنا أحمد بن مالك، حدثنا زائدة بن أبي الرقاد، عن زياد النميري، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال «الظلم ثلاثة: فظلم لا يغفره الله، وظلم يغفره الله، وظلم لا يتركه الله، فأما الظلم الذي لا يغفره الله فالشرك، وقال إن الشرك لظلم عظيم [لقمان: 13] ، وأما الظلم الذي يغفره الله فظلم العباد لأنفسهم فيما بينهم وبين ربهم، وأما الظلم الذي لا يتركه فظلم العباد بعضهم بعضا حتى يدين لبعضهم من بعض."

(سورة النساء، الآية: 47 ، 48، ج: 2، ص: 287، ط: دارالكتب  العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: سقطت عدالته) وتعود إذا تاب، لكن قال في البحر: وفي الخانية الفاسق إذا تاب لا تقبل شهادته ما لم يمض عليه زمان يظهر التوبة، ثم بعضهم قدره بستة أشهر، وبعضهم قدره بسنة، والصحيح أن ذلك مفوض إلى رأي القاضي والمعدل."

(كتاب الشهادات، باب من يجب قبول شهادته على القاضي، 5/ 473، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310100378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں