بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عالم ارواح میں حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی زندگی کے چالیس سال حضرت داود علیہ السلام کے نام کیے


سوال

 حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت داؤد علیہ السلام کوعالم ارواح میں اپنی عمر میں سے جو عمر دی تھی، اس بارے میں دونوں طرح کی روایات آتی ہیں،  ایک میں چالیس سال، دوسرے میں ساٹھ كا ذكر ہے، اس سلسلہ میں تطبیق کی کیا صورت ہو گی؟ 

جواب

صحيح روايات ميں آتا ہے كہ عالم ِارواح ميں آدم علیہ السلام نے  الله تعالی سے داود علیہ السلام كی عمر كے بارے ميں دريافت فرمایا، جب اللہ تعالی نے ان کی عمر بتلائی، تو آپ علیہ السلام نے اپنی عمر میں سے کچھ انہیں دینے کی دعا فرمائی۔ اللہ تعالی نے داود علیہ السلام کی جو عمر بتلائی اور اس پر  آدم علیہ السلام نے مزید بڑھانے کی دعا فرمائی ، ان کے متعلق دو روایات ذکر کی گئی ہیں۔

ایک روایت میں ہے :

"فقال: رب كم جعلت عمره؟ قال: ستين سنة، قال: أي رب، زده من عمري أربعين سنة".

(سنن الترمذي، أبواب تفسير القرآن، باب: ومن سورة الأعراف، الرقم: 3368، 5: 312، دار الغرب الإسلامي، 1998ه)

ترجمہ:"آدم علیہ السلام نے دریافت فرمایا: اے رب! آپ نے ان کی کتنی عمر مقدر فرمائی ہے؟ ارشاد ہوا: ساٹھ سال۔ آپ نے عرض کیا: اے رب! میری عمر سے چالیس سال نکال کر ان کی عمر میں اضافہ فرمادیں"۔

دوسری روایت میں ہے:

"قال: يا رب من هذا؟ قال: هذا ابنك داود قد كتبت له عمر أربعين سنة. قال: يا رب زده في عمره. قال: ذاك الذي كتب له. قال: أي رب، فإني قد جعلت له من عمري ستين سنة".

(سنن الترمذي، باب من أبواب تفسير القرآن، الرقم: 3368، 5: 312، دار الغرب الإسلامي، 1998ه)    

ترجمہ:"اے رب! یہ کون ہیں؟ ارشاد ہوا کہ یہ تمہارے بیٹے داود ہیں، اور میں نے  ان کی عمر چالیس برس لکھی ہے۔ آپ علیہ السلام نے عرض کیا:اے رب! ان کی عمر بڑھا دیجیے! ارشاد ہوا کہ ان کی یہ عمر  لکھی جا چکی ہے، آپ نے درخواست کی کہ اے رب! میں اپنی عمر میں سے ساٹھ سال انہیں دیتا ہوں"۔

یہ دونوں روایتیں  امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی( 279ھ) اپنی کتاب "جامع الترمذي" میں لائے ہیں،اور دونوں ميں بظاہر تعارض ہے؛کیوں کہ پہلی روایت میں حضرت داود کی عمر ساٹھ سال بتائی گئی ہے، جس پر حضرت آدم علیہ السلام نے چالیس سال بڑھانے کی دعا فرمائی، جبکہ دوسری روایت میں چالیس سال کا ذکر ہے،اور حضرت آدم علیہ السلام کی طرف سے ساٹھ سال بڑھانے کی درخواست ہے۔   اس تعارض کو حل کرنے کے لیے شارحین نے دو طریقے ذکر کیے ہیں: پہلا طریقہ دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق کا ہے، دوسرا طریقہ ایک روایت کو دوسرے پر ترجیح دینے کاہے :

روایات میں تطبیق:

ملاعلی قاری رحمہ اللہ تعالی( 1014ھ) "مرقاة المفاتيح" میں فرماتے ہیں:

"وفي الحديث إشكال؛ إذ تقدم في صدر الكتاب في الفصل الثالث من باب الإيمان بالقدر ما يخالف هذا، ويمكن الجمع والله أعلم بأنه جعل له من عمره أولا أربعين، ثم زاد عشرين فصار ستين. ونظيره قوله تعالى: {وإذ واعدنا موسى أربعين ليلة} [البقرة: 51] ، وقوله تعالى: {وواعدنا موسى ثلاثين ليلة وأتممناها بعشر فتم ميقات ربه أربعين ليلة} [الأعراف: 142] ، ولا يبعد أن يتكرر مأتى عزرائيل عليه السلام للامتحان بأن جاء وبقي من عمره ستون، فلما جحده رجع إليه بعد بقاء أربعين على رجاء أنه تذكر بعد ما تفكر فجحد ثانيا، وهذا أبلغ في باب النسيان. والله المستعان".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، للملا علي القاري، کتاب الآداب، باب السلام، 7: 2956، دار الفکر، بیروت، لبنان، ط: الأولى، 1422ه)

مذکورہ عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں روایتوں  میں  جمع اور تطبیق كي صورت يه هو سكتي ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے پہلے اپنی زندگی میں سے  چالیس سال ان کے نام کیے ہوں، پھر بیس سال بڑھا کر  ساٹھ سالکر دیے ہوں، اس کی نظیر قرآن کریم میں بھی ملتی ہے، جہاں موسی علیہ السلام کےکوہِ طور پر جانے کا قصہ  بیان کیا گیا ہے، کیوں کہسورت البقرہ میںاللہ تعالی   فرماتے ہیں: ہم نے موسی سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا، پھر سورت الاعراف میں اس کی تفصیل بیان فرمائی  کہ پہلے تیس راتوں کا وعدہ کیا تھا، پھر اس پر دس   بڑھا کر چالیس کا عدد مکمل کیا،( اسی طرح یہاں بھی ممکن ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے پہلے چالیس سال کا کہا ہو، پھر اس پر بیس بڑھاکر ساٹھ کر دیے ہوں، اور اسی بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے  روایات الگ الگ بیان کی گئی ہوں)۔ 

اور یہ بھی بعید نہیں کہ عزرائیل علیہ السلام امتحان کی غرض سے حضرت آدم عليه السلام کے پاس دو مرتبہ آئے ہوں، پہلی مرتبہ اس وقت آئے، جب آپ کی عمر ساٹھ سال تھی، تب   آپ نے اس واقعہ کے لا علمی کا اظہار کیا ، تو دوسری مرتبہ تب حاضر ہوئے جب زندگی کے چالیس سال رہ گئے ہوں، اس امید پر کہ ممکن ہے آپ کو وہ واقعہ یاد آگیا ہو، لیکن پھر بھی آپ نے لا علمی ہی کا اظہار کیا۔ 

روایات میں ترجیح کا پہلو:

 پہلی روایت  ( جس میں حضرت داود علیہ السلام کی عمر ساٹھ سال بتائی گئی ہے، اور حضرت آدم علیہ السلام نے چالیس سال بڑھانے کی دعا فرمائی)دوسری روایت پر راجح  ہے، کیوں کہ وه اپنی سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے، چنانچہ امام ترمذی پہلی روایت  ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم".

ترجمہ:"یہ حدیث صحیح و حسن درجہ کی ہے، اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی سندوں کے ساتھ  بواسطہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ   مروی ہے"۔

جبکہ دوسری روایت کے متعلق فرماتےہیں:

"هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه".

ترجمہ:یہ حدیث حسن درجہ کی ہے،اور اس سند سے غریب ہے۔

امام ترمذی علیہ الرحمۃ کے حکم سے معلوم ہوا کہ پہلی سند، دوسری سند سے زیادہ صحیح ہے۔

ملا علی قاری شارح "مشکاۃ المصابیح" رقم طراز ہیں:

"والأظهر أنه وقع شك للراوي، وتردد في كون العدد أربعين أو ستين، فعبر عنه تارة بالأربعين وأخرى بالستين، ومثل هذا وقع من المحدثين وأجاب عنه بما ذكرنا بعض المحققين".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، للملا علي القاري، کتاب الآداب، باب السلام، 7: 2956، دار الفکر، بیروت، لبنان، ط: الأولى، 1422ه)

واضح یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسری روایت میں راوی کو شک  ہوا ہے، اور انہیں چالیس اور ساٹھ کے عدد میں  تردد ہوا ہے، جس کی وجہ سے کبھی چالیس اور کبھی ساٹھ کا عدد  ذکر کیا ہے، اور اس طرح کی "بھول "بعض محدثین  کو لاحق ہوئی ہے، اور یہی جواب دیگر بعض محققین نے بھی دیا ہے۔

محدث عبد الحق الدہلوی رحمہ اللہ تعالی (1052ھ) "لمعات التنقيح"میں فرماتے ہیں:

"ويؤيد هذا القول بأن العادة في الزيادة أن يكون المزيد أقل من المزيد عليه، ولأن البعثة غالبًا تكون على رأس أربعين، فماذا كان عمره أربعين لم تحصل الدعوة".

( لمعات التنقيح للدهلوي، كتاب الإيمان، باب الإيمان بالقدر، 1: 409، دار النوادر، ط: الأولى، 1435ه)

پہلی روایت کو راجح قرار دینے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ کسی چیز کے اضافے کے متعلق عام قاعدہ  یہ ہے کہ اضافی عدد، اصل عدد سے کم ہوتا ہے،( چنانچہ اس قاعدہ کے رو سے داود علیہ السلام کی عمر ساٹھ سال ہونی چاہیے) اور(اسی طرح)  اس بات سے بھی تائید ہوتی ہے کہ نبوت کا سلسلہ عام طور پر چاليس سال سے شروع ہوتا ہے، اگر ان کی عمر چالیس سال ہی لکھی ہوئی ہوتی، تو توحید کی دعوت حاصل نہ ہو سکتی۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102508

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں