بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

الگ مسلک والے امام کے پیچھے تراویح اور وتر ادا کرنا


سوال

میں جرمنی میں مقیم ہوں اور تراویح عرب کمیونٹی کی مسجد میں ادا کر رہاہوں ، جہاں پر آٹھ تراویح ہوتی ہیں اور وتر میں بھی دعائے قنوت پڑھنے کا موقع نہیں دیتے، مجھے یہ علم نہیں ہے کہ وہ کون سے فقہ سے ہیں، کیا ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟

جواب

بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ  ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بیس رکعات تراویح ادا کرنا ثابت ہے، اور یہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول رہا ہے،  اسی پر تمام فقہائے کرام اور امتِ مسلمہ کا اجماع ہے، پس  بلاعذر بیس  رکعت کاتارک گناہ گار ہوگا۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ جماعت کے ساتھ آٹھ رکعات ادا کرنے کے بعد مزید بارہ رکعات پڑھنے کے بعد وتر کی نماز تین رکعات ایک سلام کے ساتھ انفرادی طور پر پڑھنے کا اہتمام رکھے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة  المصابيح میں ہے:

"لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً."

(كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، ٣/ ٣٨٢، ط: رشيدية)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے: 

"التراويح سنة مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين."

(كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح، ٢/ ٤٣، ط: سعيد)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"وصحح الشارح الزيلعي أنه لا يجوز اقتداء الحنفي بمن يسلم من الركعتين في الوتر وجوزه أبو بكر الرازي ويصلي معه بقية الوتر لأن إمامه لم يخرج بسلامه عنده وهو مجتهد فيه كما لو اقتدى بإمام قد رعف واشتراط المشايخ لصحة اقتداء الحنفي في الوتر بالشافعي أن لا يفصله على الصحيح مفيد لصحته إذا لم يفصله اتفاقا ويخالفه ما ذكر في الإرشاد من أنه لا يجوز الاقتداء في الوتر بالشافعي بإجماع أصحابنا لأنه اقتداء المفترض بالمتنفل فإنه يفيد عدم الصحة فصل أو وصل فلذا قال بعده والأول أصح مشيرا إلى أن عدم الصحة إنما هو عند الفصل لا مطلقا معللا بأن اعتقاد الوجوب ليس بواجب على الحنفي اهـ.

فمراده من الأول هو قوله في شروط الاقتداء بالشافعي ولا يقطع وتره بالسلام هو الصحيح."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ٢ / ٤٢، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508102724

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں